Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَهُمۡ لَهۡوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتۡهُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا‌‌ ۚ فَالۡيَوۡمَ نَنۡسٰٮهُمۡ كَمَا نَسُوۡا لِقَآءَ يَوۡمِهِمۡ هٰذَا ۙ وَمَا كَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا يَجۡحَدُوۡنَ‏ ﴿51﴾
جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیاوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا سو ہم ( بھی ) آج کے روز ان کا نام بھول جائیں گے جیسا کہ وہ اس دن کو بھول گئے اور جیسا یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے ۔
الذين اتخذوا دينهم لهوا و لعبا و غرتهم الحيوة الدنيا فاليوم ننسىهم كما نسوا لقاء يومهم هذا و ما كانوا بايتنا يجحدون
Who took their religion as distraction and amusement and whom the worldly life deluded." So today We will forget them just as they forgot the meeting of this Day of theirs and for having rejected Our verses.
Jinhon ney apney deen ko khel tamasha bana rakha tha aur jin ko dunyawi zindagi dhokay mein daal rakha tha. So hum ( bhi ) aaj kay roz unn ka naam bhool jayengay jaisa kay woh iss din ko bhool gaye aur jaisa yeh humari aayaton ka inkar kertay thay.
جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا تھا ، اور جن کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا ۔ چنانچہ آج ہم بھی ان کو اسی طرح بھلا دیں گے جیسے وہ اس بات کو بھلائے بیٹھے تھے کہ انہیں اس دن کا سامنا کرنا ہے اور جیسے وہ ہماری آیتوں کا کھلم کھلا انکار کیا کرتے تھے ۔
جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنایا ( ف۹۰ ) اور دنیا کی زیست نے انہیں فریب دیا ( ف۹۱ ) تو آج ہم انہیں چھوڑ دیں گے جیسا انہوں نے اس دن کے ملنے کا خیال چھوڑا تھا اور جیسا ہماری آیتوں سے انکار کرتے تھے ،
جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا ۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے ۔ 35
جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا لیا اور جنہیں دنیوی زندگی نے فریب دے رکھا تھا ، آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جیسے وہ ( ہم سے ) اپنے اس دن کی ملاقات کو بھولے ہوئے تھے اور جیسے وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :35 اہل جنت اور اہل دوزخ اور اصحاب الاعراف کی اس گفتگو سے کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم آخرت میں انسان کی قوتوں کا پیمانہ کس قدر وسیع ہو جائے گا ۔ وہاں آنکھوں کی بینائی اتنے بڑے پیمانہ پر ہوگی کہ جنت اور دوزخ اور اعراف کے لوگ جب چاہیں گے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے ۔ وہاں آواز اور سماعت بھی اتنے بڑے پیمانہ پر ہوگی کہ ان مختلف دنیاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے بآسانی گفت و شینید کر سکیں گے ۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے بیانات جو عالم آخرت کے متعلق ہمیں قرآن میں ملتے ہیں ۔ اس بات کا تصور دلانے کے لیے کافی ہیں کہ وہاں زندگی کے قوانین ہماری موجودہ دنیا کے قوانین طبیعی سے بالکل مختلف ہوں گے ، اگر چہ ہماری شخصیتیں یہی رہیں گی جو یہاں ہیں ۔ جن لوگوں کے دماغ اس عالم طبیعی کے حدود میں اس قدر مقیّد ہیں کہ موجودہ زندگی اور اس کے مختصر پیمانوں سے وسیع تر کسی چیز کا تصور ان میں نہیں سما سکتا وہ قرآن اور حدیث ان بیانات کو بڑے اچنبھے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کا مذاق اُڑا کر اپنی خفیف العقلی کا مزید ثبوت بھی دینے لگتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان بیچاروں کو دماغ جتنا تنگ ہے زندگی کے امکانات اُتنے تنگ نہیں ہیں ۔