Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
اَوَعَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَكُمۡ ذِكۡرٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ عَلٰى رَجُلٍ مِّنۡكُمۡ لِيُنۡذِرَكُمۡ وَلِتَـتَّقُوۡا وَلَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ‏ ﴿63﴾
اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا ہے کوئی نصیحت کی بات آ گئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرائے اور تاکہ تم ڈر جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
او عجبتم ان جاءكم ذكر من ربكم على رجل منكم لينذركم و لتتقوا و لعلكم ترحمون
Then do you wonder that there has come to you a reminder from your Lord through a man from among you, that he may warn you and that you may fear Allah so you might receive mercy."
Aur kiya tum iss baat say tajjub kertay ho kay tumharay perwerdigar ki taraf say tumharay pass aik aisay shaks ki maarfat jo tumhari hi jinss ka hai koi naseehat ki baat aagaee takay woh shaks tum ko daraye aur takay tum darr jao aur takay tum per reham kiya jaye.
بھلا کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے رب کی نصیحت ایک ایسے آدمی کے ذریعے تم تک پہنچی ہے جو خود تم ہی میں سے ہے ، تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے اور تم بدعملی سے بچ کر ہو ، اور تاکہ تم پر ( اللہ کی ) رحمت ہو؟
اور کیا تمہیں اس کا اچنبا ہوا کہ تمہارے پاس رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک مرد کی معرفت ( ف۱۱۳ ) کہ وہ تمہیں ڈرائے اور تم ڈرو اور کہیں تم پر رحم ہو ،
کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ تمہیں خبر دار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے؟ 49
کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد ( کی زبان ) پر نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ( عذابِ الٰہی سے ) ڈرائے اور تم پرہیزگار بن جاؤ اور یہ اس لئے ہے کہ تم پر رحم کیا جائے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :49 یہ معاملہ جو حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان پیش آیا تھا بعینہ ایسا ہی معاملہ مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آرہا تھا ۔ جو پیغام حضرت نوح علیہ السلام کا تھا وہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ۔ جو شہبات اہل مکّہ کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں ظاہر کیے تھے ۔ پھر ان کے جواب میں جو باتیں حضرت نوح علیہ السلام کہتے تھے بعینہ وہی باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہتے تھے آگے چل کر دوسرے انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے جو قصے مسلسل بیان ہو رہے ہیں ان میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ ہر نبی کی قوم کا رویّہ اہل مکہ کے رویّہ سے اور ہر نبی کی تقریر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سے ہُو بہُو مشابہ ہے ۔ اس سے قرآن اپنے مخاطبوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان کی گمراہی ہر زمانے میں بنیادی طور پر ایک ہی طرح کی رہی ہے ، اور خدا کے بھیجے ہوئے معلّموں کی دعوت بھی ہر عہد اور ہر سر زمین میں یکساں رہی ہے اور ٹھیک اسی طرح ان لوگوں کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہوا ہے اور ہوگا جنہوں نے انبیاء کی دعوت سے منہ موڑا اور اپنی گمراہی پر اصرار کیا ۔
نوح علیہ السلام پر کیا گزری؟ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر اپنی وحی نازل فرمائے اور اسے اپنی پیغمبری سے ممتاز کر دے تاکہ وہ تمہیں ہو شیار کر دے پھر تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الٰہی سے نجات پا لو اور تم پر گونا گوں رحمتیں نازل ہوں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی ان دلیلوں اور وعظوں نے ان سنگدلوں پر کوئی اثر نہ کیا یہ انہیں جھٹلاتے رہے مخالفت سے باز نہ آئے ایمان قبول نہ کیا صرف چند لوگ سنور گئے ۔ پس ہم نے ان نیک لوگوں کو اپنے نبی کے ساتھ کشتی میں بٹھا کر طوفان سے نجات دی اور باقی لوگوں کو تہ آب غرق کر دیا ۔ جیسے سورۃ نوح میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث غرق کر دیئے گئے پھر دوزخ میں ڈال دیئے گئے اور کوئی ایسا نہیں تھا جو ان کی کسی قسم کی مدد کرتا ۔ یہ لوگ حق سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھے ، نابینا ہوگئے تھے ، راہ حق انہیں آخر تک سجھائی نہ دی ۔ پس اللہ نے اپنے نبی کو اپنے دوستوں کو نجات دی ۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کو تہ آب برباد کر دیا ۔ جیسے اس کا وعدہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی ضرور مدد فرمایا کرتے ہیں ۔ دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ ان کی امداد کرتا ہے ان پرہیز گاروں کیلئے ہی عافیت ہے ۔ انجام کار غالب اور مظفر و منصور یہی رہتے ہیں جیسے کہ نوح علیہ السلام آخر کار غالب رہے اور کفار ناکام و نامراد ہوئے ۔ یہ لوگ تنگ پکڑ میں آ گئے اور غارت کر دئے گئے ۔ صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی آدمیوں نے نجات پائی ان ہی میں ایک صاحب جرہم نامی تھے جن کی زبان عربی تھی ۔ ابن ابی حاتم میں یہ روایت حضرت ابن عباس سے متصلاً مروی ہے ۔