Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَاسۡمَعُوۡا ‌ؕ وَلِلۡڪٰفِرِيۡنَ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿104﴾
اے ایمان !والو تم ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ) راعنا نہ کہا کرو ، بلکہ انظرنا کہو یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
يايها الذين امنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا و اسمعوا و للكفرين عذاب اليم
O you who have believed, say not [to Allah 's Messenger], "Ra'ina" but say, "Unthurna" and listen. And for the disbelievers is a painful punishment.
Aey eman walo! Tum nabi ( PBUH ko ) Raaeena na kaha kero un-zurna kaho yani humari taraf dekhiye aur suntay raha kero aur kafiron kay liye dard naak azab hai.
ایمان والو ! ( رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے مخاطب ہوکر ) راعنا نہ کہا کرو ، اور انظرنا کہہ دیا کرو ۔ ( ٧٠ ) اور سنا کرو ۔ اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
اے ایمان والو! ( ف۱۸۵ ) راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو ( ف۱۸٦ ) اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ ( ف۱۸۷ )
اے لوگو جو ایمان لائے ہو107 ؛ رَاعِنَا نہ کہا کرو ، بلکہ انظرنَا کہو اور توجّہ سے بات کو سنو 108 ، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں ۔
اے ایمان والو! ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ ( ادب سے ) اُنْظُرْنَا ( ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے ) کہا کرو اور ( ان کا ارشاد ) بغور سنتے رہا کرو ، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :107 اس رکُوع اور اس کے بعد والے رکوع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے والوں کو ان شرارتوں سے خبردار کیا گیا ہے جو اسلام اور اسلامی جماعت کے خلاف یہُودیوں کی طرف سے کی جارہی تھیں ، ان شبہات کے جوابات دیے گئے ہیں جو یہ لوگ مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے ، اور ان خاص خاص نکات پر کلام کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ یہُودیوں کی گفتگو میں زیرِ بحث آیا کرتے تھے ۔ اس موقع پر یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے پہنچے اور ان اطراف میں اسلام کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی ، تو یہُودی جگہ جگہ مسلمانوں کو مذہبی بحثوں میں اُلجھانے کی کوشش کرتے تھے ، اپنی موشگافیوں اور تشکیکات اور سوال میں سے سوال نکالنے کی بیماری ان سیدھے اور سچے لوگوں کو بھی لگانا چاہتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آ کر پُرفریب مکّارانہ باتیں کر کے اپنی گھٹیا درجے کی ذہنیّت کا ثبُوت دیا کرتے تھے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :108 یہُودی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے ، تو اپنے سلام اور کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ذُو معنی الفاظ بولتے ، زور سے کچھ کہتے اور زیرِ لب کچھ اور کہہ دیتے ، اور ظاہری ادب آداب برقرار رکھتے ہوئے درپردہ آپ کی توہین کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھتے تھے ۔ قرآن میں آگے چل کر اس کی متعدد مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ یہاں جس خاص لفظ کے استعمال سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے ، یہ ایک ذُومعنی لفظ تھا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے دَوران میں یہُودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھیریے ، ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے ، تو وہ رَاعِنَا کہتے تھے ۔ اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سُن لیجیے ۔ مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے ۔ مثلاً عبرانی میں اس سے مِلتا جُلتا ایک لفظ تھا ، جس کے معنی تھے”سُن ، تو بہرا ہو جائے “ ۔ اور خُود عربی میں اس کے ایک معنی صاحب رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے ۔ اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بھی بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ تم ہماری سُنو ، تو ہم تمہاری سُنیں ۔ اور ذرا زبان کو لچکا دے کر رَاعِیْنَا بھی بنا لیا جاتا تھا ، جس کے معنی ”اے ہمارے چرواہے“ کے تھے ۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے اُ نْظُرْ نَا کہا کرو ۔ یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے ۔ پھر فرمایا کہ ”توجّہ سے بات کو سُنو“ ، یعنی یہُودیوں کو تو بار بار یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر توجّہ نہیں کرتے اور ان کی تقریر کے دَوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں اُلجھے رہتے ہیں ، مگر تمہیں غور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننی چاہییں تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے ۔
مسلمانو کافروں کی صورت لباس اور زبان میں مشابہت سے بچو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں کی بول چال اور ان کے کاموں کی مشابہت سے روک رہا ہے یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنئے تو کہتے تھے راعنا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے آیت ( من الذین ھادوا ) یعنی یہودیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باتوں کو اصلیت سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں اپنی زبانوں کو موڑ توڑ کر اس دین میں طعنہ زنی کے لئے راعنا کہتے ہیں اگر یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا ہماری بات سنئے اور ہماری طرف توجہ کیجئے تو یہ ان کے لئے بہتر اور مناسب ہوتا لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اس میں ایمان بہت ہی کم ہے احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہو گی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہو گی الغرض قول و فعل میں ان سے مشابہت کرنا منع ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں میری روزی حق تعالیٰ نے میرے نیزے تلے لکھی ہے اس کے لئے ذلت اور پستی ہے مگر جو میرے احکام کے خلاف چلے کرے اور جو شخص کسی ( غیر مسلم ) قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ ابو داؤد میں بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے اس آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ کفار کے اقوال وافعال لباس عید اور عبادت میں ان کی مشابہت کرنا جو ہمارے لئے مشروع اور مقرر نہیں سخت منع ہے ایسا کرنے والوں کو شریعت میں عذاب کی دھمکی سخت ڈراوا اور حرمت کی اطلاع دی گئی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن کریم میں آیت ( یا ایھا الذین امنوا ) سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہو گی حضرت خیثلہ فرماتے ہیں توراۃ میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یاایھا المساکین فرمایا ہے لیکن امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت ( یا ایھا الذین امنوا ) کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے راعنا کے معنی ہماری طرف کان لگانے کے ہیں بروزن عاطنا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے معنی خلاف کے بھی ہیں یعنی خلاف نہ کہا کرو اس سے یہ بھی مروی ہے کہ مطلب یہ کہ آپ ہماری سنئے اور ہم آپ کی سنیں ۔ انصار نے بھی یہی لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہنا شروع کر دیا تھا جس سے قرآن پاک نے انہیں روک دیا حسن فرماتے ہیں راعن کہتے ہیں ( راعن مذاق کی بات کو کہتے ہیں ) یعنی تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور اسلام سے مذاق نہ کیا کرو ۔ ابو صخر کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگتے تو جنہیں کوئی بات کہنی ہوتی وہ کہتے اپنا کان ادھر کیجئے اللہ تعالیٰ نے اس بے ادبی کے کلمہ سے روک دیا اور اپنے نبی کی عزت کرنے کی تعلیم فرمائی ۔ سدی کہتے ہیں رفاعہ بن زید یہودی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے یہ لفظ کہا کرتا تھا مسلمانوں نے بھی یہ خیال کر کے یہ لفظ ادب کے ہیں یہی لفظ استعمال کرنے شروع کر دیئے جس پر انہیں روک دیا گیا جیسے سورۃ نساء میں ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اس کلمہ کو اللہ نے برا جانا اور اس کے استعمال سے مسلمانوں کو روک دیا جیسے حدیث میں آیا ہے کہ انگور کو کرم اور غلام کو عبد نہ کہو وغیرہ اب اللہ تعالیٰ ان بد باطن لوگوں کے حسد و بغض کو بیان فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تمہیں جو اس کامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کامل شریعت ملی ہے اس سے یہ تو جل بھن رہے ہیں ان سے کہ دو کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمائے وہ بڑے ہی فضل و کرم والا ہے ۔