Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۡۢ بَنِىۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُهُوۡرِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَ اَشۡهَدَهُمۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ‌ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡ‌ ؕ قَالُوۡا بَلٰى‌ ۛۚ شَهِدۡنَا ‌ۛۚ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنۡ هٰذَا غٰفِلِيۡنَ ۙ‏ ﴿172﴾
اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں ۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے ۔
و اذ اخذ ربك من بني ادم من ظهورهم ذريتهم و اشهدهم على انفسهم الست بربكم قالوا بلى شهدنا ان تقولوا يوم القيمة انا كنا عن هذا غفلين
And [mention] when your Lord took from the children of Adam - from their loins - their descendants and made them testify of themselves, [saying to them], "Am I not your Lord?" They said, "Yes, we have testified." [This] - lest you should say on the day of Resurrection, "Indeed, we were of this unaware."
Aur jab aap kay rab ney aulad-e-aadam ki pusht say unn ki aulad ko nikala aur unn say unn hi kay mutalliq iqrar liya kay kiya mein tumhara rab nahi hun? Sab ney jawab diya kiyon nahi! Hum sab gawah bantay hain. Takay tum log qayamat kay roz yun na kaho kay hum to iss say mehaz bey khabar thay.
اور ( اے رسول ! لوگوں کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب تمہارے پروردگار نے آدم کے بیٹوں کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا تھا ، اور ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنایا تھا ، ( اور پوچھا تھا کہ ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا تھا کہ : کیوں نہیں؟ ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ ( ٨٨ ) ( اور یہ اقرار ہم نے اس لیے لیا تھا ) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ : ہم تو اس بات سے بے خبر تھے ۔
اور اے محبوب! یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا ، کیا میں تمہارا رب نہیں ( ف۳۳۵ ) سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے ( ف۳۳٦ ) کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی ( ف۳۳۷ )
133 اور اے نبی ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں134 ۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم اس بات سے بے خبر تھے
اور ( یاد کیجئے! ) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا ( اور فرمایا: ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ ( سب ) بول اٹھے: کیوں نہیں! ( تو ہی ہمارا رب ہے ، ) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ ( نہ ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :133 اوپر کا سلسلہ بیان اس بات پر ختم ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بندگی و اطاعت کا عہد لیا تھا ۔ اب عام انسانوں کی طرف خطاب کر کے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل ہی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ، درحقیقت تم سب اپنے خالق کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہو اور تمہیں ایک روز جواب دہی کرنی ہے کہ تم نے اس میثاق کی کہاں تک پابندی کی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :134 جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ تخلیق آدم کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسان اول کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا ، اسی طرح پوری نسل آدم کو بھی ، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی ، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت اُبَیّ بن کَعب نے غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے ۔ وہ فرماتے ہیں: ۔ ”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور ( ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے ) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی ، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں ۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تا کہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا ۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے ۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا ۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو ، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا ۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے ، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں ، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود“ ۔ اس معاملہ کو بعض لوگ محض تمثیلی انداز بیان پر محمُول کرتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دراصل یہاں قرآن مجید صرف یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے ، اور اس بات کو یہاں ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ ایک واقعہ تھا جو عالم خارجی میں پیش آیا ۔ لیکن ہم اس تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے ۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اسے بالکل ایک واقعہ کے طور پر بیان گیا گیا ہے اور صرف بیان واقعہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے روز بنی آدم پر حجت قائم کرتے ہوئے اس ازلی عہد و اقرار کو سند میں پیش کیا جائے گا ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے محض ایک تمثیلی بیان قرار دیں ۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ بالکل اسی طرح پیش آیا تھا جس طرح عالم خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع ان تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کر کے اپنے سامنے حاضر کیا تھا ، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے سوا نہیں ہے ، اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اس کی بندگی و فرماں برداری ( اسلام ) کے سوا نہیں ہے ۔ اس اجتماع کو اگر کوئی شخص بعید از امکان سمجھتا ہے تو یہ محض اس کے دائرہ فکر کی تنگی کا نتیجہ ہے ، ورنہ حقیقت میں تو نسلِ انسانی کی موجودہ تدریجی پیدائش جتنی قریب از امکان ہے ، اتنا ہی ازل میں ان کا مجموعی ظہور ، ابد میں ان کا مجموعی حشر و نشر بھی قریب از امکان ہے ۔ پھر یہ بات نہایت معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحب عقل و شعور اور صاحب تصرف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرار ( Oath of allegiance ) لے ۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابلِ تعجب نہیں ، البتہ اگر یہ پیش نہ آتا تو ضرور قابلِ تعجب ہوتا ۔
ہر روح نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق مانا اولاد آدم سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ان کی پیٹھوں سے روز اول میں نکالیں ۔ پھر ان سب سے اس بات کا اقرار لیا کہ رب ، خالق ، مالک ، معبود صرف وہی ہے ۔ اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا ۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی ناممکن ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دین پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں ، حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔ قبیلہ بن سعد کے ایک صحابی حضرت اسود بن سریع فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چار غزوے کئے لوگوں نے لڑنے والے کفار کے قتل کے بعد ان کے بجوں کو بھی پکڑ لیا جب آپ کو اس کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا لوگ ان بچوں کو کیوں پکڑ رہے ہیں؟ کسی نے کہا حضور وہ بھی تو مشرکوں کے ہی بچے ہیں؟ فرمایا سنو تم میں سے بہتر لوگ مشرکین کی اولاد میں ہیں یاد رکھو ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر زبان چلنے پر اس کے ماں باپ یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم دینے لگتے ہیں ۔ اس کے راوی حضرت حسن فرماتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے ( ابن جریر ) اس اقرار کے بارے میں کئی ایک حدیثیں مروی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا اگر تمام دنیا تیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدئیے میں دے کر میرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟ وہ کہے گا ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو اس سے بہت ہی ہلکے درجے کی چیز تجھ سے طلب کی تھی اور اس کا وعدہ بھی تجھ سے لے لیا تھا کہ میرے سوا تو کسی اور کی عبادت نہ کرے لیکن تو عہد توڑے بغیر نہ رہا اور دوسرے کو میرا شریک عبادت ٹھہرایا ۔ مسند میں ہے نعمان نامی میدان میں اللہ تعالیٰ نے پشت آدم میں سے عرفے کے دن ان کی تمام اولاد ظاہر فرمائی سب کو اس کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا کہ میں تم سب کا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں ہم گواہ ہیں پھر آپ نے مبطلون تک تلاوت فرمائی ۔ یہ روایت موقوف ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ اس وقت لوگ چیونٹیوں کی طرح تھے اور تر زمین پر تھے ۔ حضرت ضحاک بن مزاحم کے جھ دن کی عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا جابر اسے دفن کر کے اس کا منہ کفن سے کھول دینا اور گرہ بھی کھول دینا کیونکہ میرا یہ بچہ بٹھا دیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا جابر نے حکم کی بجا آوری کی ، پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے بجے سے کیا سوال ہو گا اور کون سوال کرے گا ؟ فرمایا اس میثاق کے بارے میں جو صلب آدم میں لیا گیا ہے سوال کیا جائے گا ۔ میں نے پوچھا وہ میثاق کیا ہے؟ فرمایا میں نے حضرت ابن عباس سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو جتنے انسان قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں سب کی روحیں آ گئیں اللہ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں گے اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے خود ان کے رزق کا کفیل بنا پھر انہیں صلب آدم میں لوٹا دیا ۔ پس یہ سب قیامت سے پہلے ہی پہلے پیدا ہوں گے ۔ جس نے اس وعدے کو پورا کیا اور اپنی زندگی میں اس پر قائم رہا اسے وہ وعدہ نفع دے گا اور جس نے اپنی زندگی میں اس کی خلاف ورزی کی اسے پہلے کا وعدہ کجھ فائدہ نہ دے گا ۔ بچپن میں ہی جو مر گیا وہ میثاق اول پر اور فطرت پر مرا ۔ ان آثار سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث کا موقوف ہونا ہی اکثر اور زیادہ ثبوت والا ہے ۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسی نکلایں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا انہوں نے اقرار کیا فرشتوں نے شہادت دی اس لئے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تو آپ نے میرے سنتے ہوئے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے حضرت آدم کو پیدا کیا اپنے داہنے ہاتھ سے ان کی پیٹھ کو چھوا اس سے اولاد نکلی فرمایا میں نے انہیں جہنم کیلئے پیدا کیا ہے یہ جہنمیوں کے اعمال کریں گے تو آپ سے سوال ہوا کہ پھر عمل کس گنتی میں ہیں؟ آپ نے فرمایا جو جنتی ہے اس سے مرتے دم تک جنتیوں کے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور جنت میں جائیں گے ہاں جو جہنم کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس سے وہی اعمال سرزد ہوں گے انہی پر مرے گا اور جہنم میں داخل ہو گا ( ابوداؤد ) اور حدیث میں ہے کہ اولاد آدم کو نکال کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور رکھ کر حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں؟ فرمایا یہ تیری اولاد ہے ان میں سے ایک کے ماتھے کی چمک کو حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں؟ فرمایا یہ تیری اولاد میں سے بہت دور جا کر ہیں ان کا نام داؤد ہے پوچھا ان کی عمر کیا ہے؟ فرمایا ساٹھ سال کہا یا اللہ چالیس سال میری عمر میں سے ان کی عمر میں زیادہ کر پس جب حضرت آدم کی روح کو قبض کرنے کیلئے فرشتہ آیا تو آپ نے فرمایا میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں ، فرشتے نے کہا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے حضرت داؤد کو ہبہ کر دیئے ہیں ۔ بات یہ ہے چونکہ آدم نے انکار کیا تو ان کی اولاد بھی انکار کی عادی ہے آدم خود بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے آدم نے خطا کی ان کی اولاد بھی خطا کرتی ہے ، یہ حدیث ترمذی میں ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح لکھتے ہیں اور روایت میں ہے کہ جب آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ کوئی ان میں جذامی ہے کوئی کوڑھی ہے کوئی اندھا ہے کوئی بیمار ہے تو پوچھا کہ یا اللہ اس میں کیا مصلحت ہے ؟ فرمایا یہ کہ میرا شکریہ کیا جائے ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ ان میں یہ زیادہ روشن اور نورانی چہروں والے کون ہیں؟ فرمایا یہ انبیاء ہیں ۔ کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ ہمارا ذاتی عمل ہے یا کہ فیصل شدہ ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے نکالا انہیں گواہ بنایا پھر اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی ۔ پس اہل جنت پر تو نیک کام آسان ہوتے ہیں اور دوزخیوں پر برے کام آسان ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور قضیہ ختم کیا تو جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے والا ہے انہیں اپنی داہنی مٹھی میں لیا اور بائیں والوں کو بائیں مٹھی میں لیا پھر فرمایا اے دائیں طرف والو انہوں نے کہا لبیک وسعد یک فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں پھر سب کو ملا دیا کسی نے پوچھا یہ کیوں کیا ؟ فرمایا اس لئے کہ ان کے لئے اور اعمال ہیں جنہیں یہ کرنے والے ہیں یہ تو صرف اس لئے کہلوایا گیا ہے کہ انہیں یہ عذر نہ رہے کہ ہم اس سے غافل تھے ۔ پھر سب کو صلب آدم میں لوٹا دیا ۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس میدان میں اس دن سب کو جمع کیا ، صورتیں دیں ، بولنے کی طاقت دی ، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں ، ساتوں زمینوں اور حضرت آدم کو گواہ بنایا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں سب نے جواب میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے تو ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں ۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا اب جو حضرت آدم علیہ السلام نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر غریب اور اس کے سوا مختلف قسم کے لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت کے ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لئے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے ۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں اللہ کے پیغمبر بھی ہیں ان سے پھر علیحدہ ایک اور میثاق لیا گیا جس کا بیان آیت ( وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا Ċ۝ۙ ) 33- الأحزاب:7 ) ، میں ہے ۔ اسی عام میثاق کا بیان آیت ( فطرۃ اللہ ) میں ہے اسی لئے فرمان ہے آیت ( ھذا نذیر من النزر الا ولی ) اسی کا بیان اس آیت میں ہے ( وما وجدنا لا کثرھم من عھد ) ( مسند احمد ) حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت حسن ، حضرت قتادہ ، حضرت سدی اور بہت سے سلف سے ان احادیث کے مطابق اقوال مروی ہیں جن سب کے وارد کرنے سے بہت طول ہو جائے گا ماحصل سب کا یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو آپ کی پیٹھ سے نکالا جنتی دوزخی الگ الگ کئے اور وہیں ان کو اپنے رب ہونے پر گواہ کر لیا یہ جن دو احادیث میں ہے وہ دونوں مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہیں اسی لئے سلف و خلف میں اس بات کے قائل گذرے ہیں کہ اس سے مراد فطرت پر پیدا کرنے ہے جیسے کہ مرفوع اور صحیح احادیث میں وارد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت ( من بنی آدم ) فرمایا اور آیت ( من ظھور ھم ) کہا ورنہ من آدم اور من ظھرہ ہوتا ۔ ان کی نسلیں اس روز نکالی گئیں جو کہ یکے بعد دیگرے مختلف قرنوں میں ہونے والی تھیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٦٥؀ۧ ) 6- الانعام:165 ) اللہ ہی نے تمہیں زمین میں دوسروں کا جانشین کیا ہے اور جگہ ہے وہی تمہیں زمین کے خلیفہ بنا رہا ہے اور آیت میں ہے جیسے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد میں کیا ۔ الغرض حال و قال سے سب نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا ۔ شہادت قولی ہوتی ہے جیسے آیت ( شھدنا علی انفسانا ) میں اور شہادت کبھی حال سے ہوتی ہے جیسے آیت ( مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۭاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ 17؀ ) 9- التوبہ:17 ) میں یعنی ان کا حال ان کے کفر کی کھلی اور کافی شہادت ہے اس طرح کی آیت ( وانہ علی ذالک لشھید ) ہے ۔ اسی طرح سوال بھی کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی حال سے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ 34؀ۧ ) 14- ابراھیم:34 ) اس نیت میں تمہارے کا منہ مانگا دیا ۔ کہتی ہیں کہ اس بات پر یہ دلیل بھی ہے کہ ان کے شرک کرنے پر یہ حجت ان کے خلاف پیش کی ۔ پس اگر یہ واقع میں ہوا ہوتا جیسا کہ ایک قول ہے تو چاہئے تھا کہ ہر ایک کو یاد ہوتا تاکہ اس پر حجت رہے ۔ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ فرمان رسول سے خبر پا لینا کافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو رسولوں کو ہی نہیں مانتے وہ رسولوں کی دی ہوئی خبروں کو کب صحیح جانتے ہیں؟ حالانکہ قرآن کریم نے رسولوں کی تکذیب کے علاوہ خود اس شہادت کو مستقل دلیل ٹھہرایا ہے پس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے ۔ اسی لئے فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟ پھر تفصیل وار آیات کے بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آ جانا ممکن ہو جاتا ہے ۔