Surah

Information

Surah # 8 | Verses: 75 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 88 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 30-36 from Makkah
يُجَادِلُوۡنَكَ فِى الۡحَـقِّ بَعۡدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوۡنَ اِلَى الۡمَوۡتِ وَهُمۡ يَنۡظُرُوۡنَؕ‏ ﴿6﴾
وہ اس حق کے بارے میں اس کے بعد کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکنے کے لئے جاتا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں ۔
يجادلونك في الحق بعد ما تبين كانما يساقون الى الموت و هم ينظرون
Arguing with you concerning the truth after it had become clear, as if they were being driven toward death while they were looking on.
Woh iss haq kay baray mein iss kay baad kay uss ka zahoor hogaya tha aap say iss tarah jhagar rahey thay kay goya koi unn ko maut ki taraf haankay liye jata hai aur woh dekh rahey hain.
وہ تم سے حق کے معاملے میں اس کے واضح ہوجانے کے باوجود اس طرح بحث کر رہے تھے جیسے ان کو موت کی طرف ہنکا کرلے جایا جارہا ہو اور وہ ( اسے ) آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں ۔
سچی بات میں تم سے جھگڑتے تھے ( ف۱۱ ) بعد اس کے کہ ظاہر ہوچکی ( ف۱۲ ) گویا وہ آنکھوں دیکھی موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں ( ف۱۳ )
وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے دراں حالے کہ وہ صاف صاف نمایا ں ہوچکا تھا ۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں ۔ 4
وہ آپ سے اَمرِ حق میں ( اس بشارت کے ) ظاہر ہوجانے کے بعد بھی جھگڑنے لگے ( کہ اللہ کی نصرت آئے گی اور لشکرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح نصیب ہوگی ) گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور وہ ( موت کو آنکھوں سے ) دیکھ رہے ہیں
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :4 یعنی جس طرح اس وقت یہ لوگ خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے ، حالانکہ حق کا مطالبہ اس وقت یہی تھا کہ خطرے کے منہ میں چلے جائیں ، اسی طرح آج انہیں مال غنیمت ہاتھ سےچھوڑنا ناگوار ہو رہا ہے ، حالانکہ حق کا مطالبہ یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑیں اور حکم کا انتظار کریں ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ کی اطاعت کرو گے اور اپنے نفس کی خواہش کے بجائے رسول کا کہا مانو گے تو ویسا ہی اچھا نتیجہ دیکھو گے جیسا ابھی جنگ بدر کے موقع پر دیکھ چکے ہو کہ تمہیں لشکر قریش کے مقابلہ پر جانا سخت ناگوار تھا اور اسے تم ہلاکت کا پیغام سمجھ رہے تھے لیکن جب تم نے حکم خدا و رسول کی تعمیل کی تو یہی خطرناک کام تمہارے لیے زندگی کا پیغام ثابت ہوا ۔ قرآن کا یہ ارشاد ضمناً ان روایات کی بھی تردید کر رہا ہے جو جنگ بدر کے سلسلے میں عموماً کتب سیرت و مغازی میں نقل کی جاتی ہیں ، یعنی یہ کہ ابتداءً نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین قافلے کو لوُٹنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے ۔ پھر چند منزل آگے جا کر جب معلوم ہوا کہ قریش کا لشکر قافلہ کی حفاظت کے لیے آرہا ہے تب یہ مشورہ کیا گیا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے یا لشکر کا مقابلہ؟ اس بیان کے برعکس قرآن یہ بتا رہا ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے تھے اسی وقت یہ امرِ حق آپ کے پیش نظر تھا کہ قریش کے لشکر سے فیصلہ کن مقابلہ کیا جائے ۔ اور یہ مشاورت بھی اسی وقت ہوئی تھی کہ قافلے اور لشکر میں کس کو حملہ کے لیے منتخب کیا جائے ۔ اور باوجودیکہ مومنین پر یہ حقیقت واضح ہوچکی تھی کہ لشکر ہی سے نمٹنا ضروری ہے ، پھر بھی ان میں سے ایک گروہ اس سے بچنے کے لیے حجت کرتا رہا ۔ اور بالآخر جب آخری رائے یہ قرار پا گئی کہ لشکر ہی کی طرف چلنا چاہیے تو یہ گروہ مدینہ سے یہ خیال کرتا ہوا چلا کہ ہم سیدھے موت کے منہ میں ہانکے جا رہے ہیں ۔