Surah

Information

Surah # 8 | Verses: 75 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 88 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 30-36 from Makkah
وَاذۡكُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡـتُمۡ قَلِيۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰٮكُمۡ وَاَيَّدَكُمۡ بِنَصۡرِهٖ وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿26﴾
اور اس حالت کو یاد کرو! جب کہ تم زمین میں قلیل تھے کمزور شمار کئے جاتے تھے ۔ اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ تم کو لوگ نوچ کھسوٹ نہ لیں ، سو اللہ نے تم کو رہنے کی جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کو نفیس نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم شکر کرو ۔
و اذكروا اذ انتم قليل مستضعفون في الارض تخافون ان يتخطفكم الناس فاوىكم و ايدكم بنصره و رزقكم من الطيبت لعلكم تشكرون
And remember when you were few and oppressed in the land, fearing that people might abduct you, but He sheltered you, supported you with His victory, and provided you with good things - that you might be grateful.
Aur uss halat ko yaad kero! Jab tum zamin mein qaleel thay kamzor shumar kiye jatay thay. Iss andeshay mein rehtay thay kay tum ko log noch khasot na len so Allah ney tum ko rehney ki jagah di aur tum ko apni nusrat say qooat di aur tum ko nafees nafees cheezen ata farmaeen takay tum shukar kero.
اور وہ وقت یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے ، تمہیں لوگوں نے ( تمہاری ) سرزمین میں دبا کر رکھا ہوا تھا ، تم ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک کرلے جائیں گے ۔ پھر اللہ نے تمہیں ٹھکانا دیا ، اور اپنی مدد سے تمہیں مضبوط بنا دیا ، اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا کیا ، تاکہ تم شکرو کرو ۔
اور یاد کرو ( ف٤۳ ) جب تم تھوڑے تھے ملک میں دبے ہوئے ( ف٤٤ ) ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لے جائیں تو اس نے تمہیں ( ف٤۵ ) جگہ دی اور اپنی مدد سے زور دیا اور ستھری چیزیں تمہیں روزی دیں ( ف٤٦ ) کہ کہیں تم احسان مانو ،
یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے ، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا ، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مِٹا نہ دیں ۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی ، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا ، شاید کہ تم شکر گزار بنو ۔ 21
اور ( وہ وقت یاد کرو ) جب تم ( مکی زندگی میں عدداً ) تھوڑے ( یعنی اَقلیّت میں ) تھے ملک میں دبے ہوئے تھے ( یعنی معاشی طور پر کمزور اور استحصال زدہ تھے ) تم اس بات سے ( بھی ) خوفزدہ رہتے تھے کہ ( طاقتور ) لوگ تمہیں اچک لیں گے ( یعنی سماجی طور پر بھی تمہیں آزادی اور تحفظ حاصل نہ تھا ) پس ( ہجرتِ مدینہ کے بعد ) اس ( اللہ ) نے تمہیں ( آزاد اور محفوظ ) ٹھکانا عطا فرما دیا اور ( اسلامی حکومت و اقتدار کی صورت میں ) تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور ( مواخات ، اَموالِ غنیمت اور آزاد معیشت کے ذریعے ) تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرما دی تاکہ تم اللہ کی بھرپور بندگی کے ذریعے اس کا ) شکر بجا لا سکو
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :21 یہاں شکر گزاری کا لفظ غور کے قابل ہے ۔ اوپر کے سلسلہ تقریر کو نظر میں رکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس موقع پر شکر گزاری کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ لوگ اللہ کے اس احسان کو مانیں کہ اس نے اس کمزوری کی حالت سے انہیں نکالا اور مکہ کی پر خطر زندگی سے بچا کر امن کی جگہ لے آیا جہاں طیبات رزق میسر ہو رہے ہیں ، بلکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی اسی شکر گزاری کے مفہوم میں داخل ہے کہ مسلمان اس خدا کی اور اس کے رسول کی اطاعت کریں جس نے یہ احسانات ان پر کیے ہیں ، اور رسول کے مشن میں اخلاص و جاں نثاری کے ساتھ کام کریں ، اور اس کام میں جو خطرات و مہالک اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ اسی خدا کے بھروسے پر کرتے چلے جائیں جس نے اس سے پہلے ان کو خطرات سے بعافیت نکالا ہے ، اور یقین رکھیں کہ جب وہ خدا کا کام اخلاص کے ساتھ کریں گے تو خدا ضرور ان کا وکیل و کفیل ہوگا ۔ پس شکر گزاری محض اعترافی نوعیت ہی کی مطلوب نہیں ہے بلکہ عملی نوعیت کی بھی مطلوب ہے ۔ احسان کا اعتراف کرنے کے باوجود محسن کی رضا جوئی کے لیے سعی نہ کرنا اور اس کی خدمت میں مخلص نہ ہونا اور اس کے بارے میں یہ شک رکھنا کہ نہ معلوم آئندہ بھی وہ احسان کریگا یا نہیں ، ہرگز شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اُلٹی ناشکری ہے ۔
اہل ایمان پر اللہ کے احسانات مومنوں کو پروردگار عالم اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے کہ ان کی گنتی اس نے بڑھا دی ، ان کی کمزوری کو زور سے بدل دیا ، ان کے خوف کو امن سے بدل دیا ، ان کی ناتوانی کو طاقت سے بدل دیا ، ان کی فقیری کو امیری سے بدل دیا ، انہوں نے جیسے جسیے اللہ کے فرمان کی بجا آوری کی ویسے ویسے یہ تری پا گئے ۔ مومن صحابہ مکہ کے قیام کی حالت میں تعداد میں بہت تھوڑے تھے ، چھپے پھرتے تھے ، بےقرار رہتے تھے ، ہر وقت دشمنوں کا خطرہ لگا رہتا تھا ، مجوسی ان کے دشمن تھے ، یہودی ان کی جان کے پیچھے ، بت پرست ان کے خون کے پیاسے ، نصرانی ان کی فکر میں ۔ دشمنوں کی یہ حالت تھی تو ان کی اپنی یہ حالت کہ تعداد میں انگلیوں پر گن لو ۔ بغیر طاقت شان شوکت مطلقاً نہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیتا ہے یہ مان لیتے ہیں وہاں پہنچتے ہی اللہ ان کے قدم جما دیتا ہے وہاں مدینہ والوں کو ان کا ساتھی بلکہ پشت پناہ بنا دیتا ہے وہ ان کی مدد پر اور ساتھ دینے پر تیار ہو جاتے ہیں بدر والے دن اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں ، اپنے مال پانی کی طرح راہ حق میں بہاتے ہیں اور دوسرے موقعوں پر بھی نہ اطاعت چھوڑتے ہیں نہ ساتھ نہ سخاوت ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چاند کی طرح چمکنے لگتے ہیں اور سورج کی طرح دمکنے لگتے ہیں ۔ قتادہ بن دعامہ سدوسی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عرب کے یہ لوگ سب سے زیادہ گرے ہوئے ، سب سے زیادہ تنگ حال ، سب سے زیادہ بھوکے ننگے ، سب سے زیادہ گمراہ اور بےدین و مذہب تھے ۔ جیتے تو ذلت کی حالت میں ، مرتے تو جہنمی ہو کر ، ہر ایک ان کے سر کچلتا لیکن یہ آپ میں الجھے رہتے ۔ واللہ روئے زمین پر ان سے زیادہ گمراہ کوئی نہ تھا ۔ اب یہ اسلام لائے اللہ کے رسول کے اطاعت گذار بنے تو ادھر سے ادھر تک شہروں بلکہ ملکوں پر ان کا قبضہ ہو گیا دنیا کی دولت ان کے قدموں پر بکھرنے لگی لوگوں کی گردنوں کے مالک اور دنیا کے بادشاہ بن گئے یاد رکھو یہ سب کچھ سچے دین اور اللہ کے رسول کی تعلیم پر عمل کے نتائج تھے پس تم اپنے پروردگار کے شکر میں لگے رہو اور اس کے بڑے بڑے احسان تم پر ہیں وہ شکر کو اور شکر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے سنو شکر گذار نعمتوں کی زیادتی میں ہی رہتے ۔