Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَيۡبِ وَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَۙ‏ ﴿3﴾
جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے ( مال ) میں سے خرچ کرتے ہیں ۔
الذين يؤمنون بالغيب و يقيمون الصلوة و مما رزقنهم ينفقون
Who believe in the unseen, establish prayer, and spend out of what We have provided for them,
Jo log ghaib per eman latay hain aur namaz ko qaeem rakhtay hain aur humaray diye huye ( maal ) mein say kharach kertay hain.
جو بےدیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ہیں ( ٤ ) اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے ( اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں ) خرچ کرتے ہیں ۔
وہ جو بےدیکھے ایمان لائیں ( ف۵ ) اور نماز قائم رکھیں ( ف٦ ) اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری میں اٹھائیں ۔ ( ف۷ )
ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے 3 لئے جو غیب پر ایمان لاتے 4 ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں5 ، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں6 ۔
جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو ( تمام حقوق کے ساتھ ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے ( ہماری راہ ) میں خرچ کرتے ہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :4 یہ قرآن سے فائدہ اُٹھانے کے لیے دُوسری شرط ہے ۔ ”غیب“ سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہِ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں ۔ مثلاً خدا کی ذات و صفات ، ملائکہ ، وحی ، جنّت ، دوزخ وغیرہ ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے ، ایمان بالغیب ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے ۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سُونگھنے کی شرط لگائے ، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جا سکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :5 یہ تیسری شرط ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے ۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہو جائے ۔ اور عملی اطاعت کی اوّلین علامت اور دائمی علامت نماز ہے ۔ ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مُوٴَذِّن نماز کے لیے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اطاعت کےلیے بھی تیار ہے یا نہیں ۔ پھر یہ مُوٴَذِّن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے ، اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبّیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ مدّعی ایمان اطاعت سے خارج ہو گیا ہے ۔ پس ترکِ نماز دراصل ترکِ اطاعت ہے ، اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص کسی کی ہدایت پر کاربند ہونے کے لیے ہی تیار نہ ہو اس کے لیے ہدایت دینا اور نہ دینا یکساں ہے ۔ یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقامتِ صلوٰۃ ایک جامع اصلاح ہے ۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام باقاعدہ قائم کیا جائے ۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو ، لیکن جماعت کے ساتھ اس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں نماز قائم کی جا رہی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :6 یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے کہ آدمی تنگ دل نہ ہو ، زر پرست نہ ہو ، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں اُنہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو ، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے ۔
ایمان کی تعریف حضرت عبداللہ فرماتے ہیں ۔ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے ۔ حضرت ابن عباس بھی یہی فرماتے ہیں ۔ حضرت زہری فرماتے ہیں ایمان کہتے ہیں عمل کو ربیع بن انس کہتے ہیں ۔ یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں ۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے ، دل سے ، عمل سے ، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا ۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے اصولوں پر ، ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے ۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو ، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جیسے فرمایا حدیث ( یومن باللہ ویومن من للمومنین ) یعنی اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا ۔ آیت ( وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:17 ) یعنی تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں ۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) 26 ۔ الشعرآء:227 ) ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے ۔ اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی امام احمد اور امام ابو عبیدہ وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا ۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں ۔ فالحمد للہ ۔ بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کئے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ ) 67 ۔ الملک:12 ) جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں ۔ اور جگہ فرمایا آیت ( من خشی الرحمن بالغیب ) الخ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے ۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ) 35 ۔ فاطر:28 ) جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے آیت ( اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ) 63 ۔ المنافقون:1 ) یعنی منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں ۔ اس معنی کے اعتبار سے بالغیب حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں در آنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ غیب کا لفظ جو یہاں ہے ، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر ، فرشتوں پر ، کتابوں پر ، رسولوں پر ، قیامت پر ، جنت دوزخ پر ، ملاقات اللہ پر ، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ، ایمان لانا ہے ۔ قتادہ ابن دعامہ کا یہی قول ہے ۔ ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت ، دوزخ وغیرہ ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے ۔ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے ۔ عطا ابن ابو رباح فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا ، غیب پر ایمان لانے والا ہے ۔ اسماعیل بن ابو خالد فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں ۔ زید بن اسلم کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے ۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں ۔ پھر آپ نے الم سے لے کر مفلحون تک آیتیں پڑھیں ۔ ( ابن ابی حاتم ۔ ابن مردویہ ۔ مستدرک ۔ حاکم ) امام حاکم اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں ۔ مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے ۔ ابو جمع صحابی سے ابن محریز نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو تم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو ۔ فرمایا میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں ، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا ، ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ، انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے؟ ہم آپ پر اسلام لائے ، آپ کے ساتھ جہاد کیا ، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے ، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے ۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے ۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے ، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے ، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہئے ۔ سنو! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ ۔ کہا سنو! ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ہم دس آدمی تھے ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں تھے ، ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا ؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی ۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے ، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے ۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے ، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے ، یہ لوگ اجر میں تم سے گنے ہوں گے ۔ اس حدیث میں وجاوہ کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے ۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا ، تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے ، انہوں نے کہا ، فرشتے ۔ فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں ، لوگوں نے پھر کہا انبیاء ، فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے ۔ کہا پھر ہم ۔ فرمایا تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے ۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے ۔ اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں ۔ ابو حاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے ۔ مسند ابو یعلی تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں ۔ حضرت انس بن مالک سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت بدیلہ بنت اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں ۔ بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے ۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے ۔ قیام صلوٰۃ کیا ہے ابن عباس فرماتے ہیں فرائض نماز بجا لانا ۔ رکوع سجدہ تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے ۔ قتادہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا ، وضو اچھی طرح کرنا ، رکوع سجدہ پوری طرح کرنا ، اقامت صلوٰۃ ہے ۔ مقاتل کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا ۔ مکمل طہارت کرنا ، رکوع ، سجدہ پورا کرنا ، تلاوت اچھی طرح کرنا ۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں آیت ( وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ) 8 ۔ الانفال:3 ) کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں ۔ ابن عباس بن مسعود اور بعض صحابہ نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے ۔ خرچ میں قربانی دینا جر قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے دی جاتی ہے ۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برات میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں ۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا ۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ میں اہل و عیال کا خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لئے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے ۔ لہذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا ۔ میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لئے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید ، اس کی ثناء اس کی بزرگی ، اس کی طرف جھکنے ، اس پر توکل کرنے ، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے ۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں ، پھر دور والے اجنبی ۔ لہذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں ۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا ۔ نماز قائم رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ عربی لغت میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں ۔ عرب شاعروں کے شعر پر شاہد ہیں ۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لئے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں ۔ صلوٰۃ کو نماز اس لئے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں صلوین کہتے ہیں چونکہ صلوٰۃ میں یہ ہلتی ہیں اس لئے اسے صلوٰۃ کہا گیا ہے ۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے صلی سے ، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا ۔ جیسے قرآن میں آیت ( لَا يَصْلٰىهَآ ) 92 ۔ اللیل:15 ) یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لئے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تصلیہ کہتے ہیں چونکہ مصلی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لئے اسے صلوٰۃ کہتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں ہے آیت ( ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ) 29 ۔ العنکبوت:45 ) یعنی نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے واللہ اعلم ۔ لفظ زکوٰۃ کی بحث انشاء اللہ اور جگہ آئے گی ۔