اَجَعَلۡتُمۡ سِقَايَةَ الۡحَـآجِّ وَعِمَارَةَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ كَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَجَاهَدَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ؕ لَا يَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَۘ ﴿19﴾
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں اور اللہ تعالٰی ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
اجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام كمن امن بالله و اليوم الاخر و جهد في سبيل الله لا يستون عند الله و الله لا يهدي القوم الظلمين
Have you made the providing of water for the pilgrim and the maintenance of al-Masjid al-Haram equal to [the deeds of] one who believes in Allah and the Last Day and strives in the cause of Allah ? They are not equal in the sight of Allah . And Allah does not guide the wrongdoing people.
Kiya tum ney hajiyon ko pani pila dena aur masjis-e-haram ki khidmat kerna iss kay barabar ker diya hai jo Allah per aur aakhirat kay din per eman laye aur Allah ki raah mein jihad kiya yeh Allah kay nazdik barabar kay nahi aur Allah Taalaa zalimon ko hidayat nahi deta.
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص کے ( اعمال کے ) برابر سمجھ رکھا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہے ، اور جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے ۔ ( ١٦ ) اللہ کے نزدیک یہ سب برابر نہیں ہوسکتے ۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا ۔
تو کیا تم نے حاجیوں کی سبیل اور مسجد حرام کی خدمت اس کے برابر ٹھہرا لی جو اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، وہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ، اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا ( ف٤۳ )
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ 21 اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا ۔
کیا تم نے ( محض ) حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی آبادی و مرمت کا بندوبست کرنے ( کے عمل ) کو اس شخص کے ( اعمال ) کے برابر قرار دے رکھا ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لے آیا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، یہ لوگ اللہ کے حضور برابر نہیں ہو سکتے ، اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :21
یعنی کسی زیارت گاہ کی سجادہ نشینی ، مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری ، جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں ، خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی ۔ اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے ۔ ان صفات کا جو شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خواہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں ۔ لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں ۔ سجادہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آرہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں ، نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ایسے بے حقیقت ”موروثی“ حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں ۔
سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت ایمان وجہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں ۔ اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنے کو بےنقاب کیا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم ان سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو ۔ پس تمہارا گمان بیجا تمہارا غرور غلط ، تمہارا فخر نامناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی گئی ۔ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے ۔ صحابہ نے جب ان سے پر لے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے ، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے ، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے ، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے ، اس پر یہ آیت اتری ، مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی تھی ۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ ، عباس بن عبد المطلب ، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے ، عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کرلوں گا ۔