Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَلَوۡ اَرَادُوۡا الۡخُـرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَهٗ عُدَّةً وَّلٰـكِنۡ كَرِهَ اللّٰهُ انۢبِعَاثَهُمۡ فَثَبَّطَهُمۡ وَقِيۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِيۡنَ‏ ﴿46﴾
اگر ان کا ارادہ جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وہ اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کیساتھ بیٹھے ہی رہو ۔
و لو ارادوا الخروج لاعدوا له عدة و لكن كره الله انبعاثهم فثبطهم و قيل اقعدوا مع القعدين
And if they had intended to go forth, they would have prepared for it [some] preparation. But Allah disliked their being sent, so He kept them back, and they were told, "Remain [behind] with those who remain."
Agar inn ka irada jihad kay liye nikalney ka hota to woh iss safar kay liye saman ki tayyari ker rakhtay lekin Allah ko inn ka uthna pasand hi na tha iss liye enhen harkat say hi rok diya aur keh diya gaya kay tum bethney walon kay sath bethay hi raho.
اگر ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو اس کے لیے انہوں نے کچھ نہ کچھ تیاری کی ہوتی ۔ ( ٣٩ ) لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں کیا ، اس لیے انہیں سست پڑا رہنے دیا ، اور کہہ دیا گیا کہ جو ( اپاہج ہونے کی وجہ سے ) بیٹھے ہیں ، ان کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو ۔
انہیں نکلنا منظور ہوتا ( ف۱۰۸ ) تو اس کا سامان کرتے مگر خدا ہی کو ان کا اٹھنا پسند ہوا تو ان میں کاہلی بھردی اور ( ف۱۰۹ ) فرمایا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھ رہنے والے کے ساتھ ( ف۱۱۰ )
اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا 47 اس لیے اس نے انھیں سست کر دیا اور کہہ دیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ ۔
اگر انہوں نے ( واقعی جہاد کے لئے ) نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو وہ اس کے لئے ( کچھ نہ کچھ ) سامان تو ضرور مہیا کر لیتے لیکن ( حقیقت یہ ہے کہ ان کے کذب و منافقت کے باعث ) اللہ نے ان کا ( جہاد کے لئے ) کھڑے ہونا ( ہی ) ناپسند فرمایا سو اس نے انہیں ( وہیں ) روک دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم ( جہاد سے جی چرا کر ) بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :47 یعنی بادل ناخواستہ اٹھنا اللہ کو پسند نہیں تھا ۔ کیونکہ جب وہ شرکت جہاد کے جذبے اور نیت سے خالی تھے اور ان کے اندر دین کی سربلندی کے لیے جاں فشانی کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی ، تو وہ صرف مسلمانوں کی شرما شرمی سے بددلی کے ساتھ یا کسی شرارت کی نیت سے مستعدی کے ساتھ اُٹھتے اور یہ چیز ہزار خرابیوں کی موجب ہوتی جیسا کہ بعد والی آیت میں بتصریح فرما دیا گیا ہے ۔
غلط گو غلط کار کفار و منافق عذر کرنے والوں کے غلط ہونے کی ایک ظاہری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو کم از کم سامان سفر تو تیار کر لیتے لیکن یہ تو اعلان اور حکم کے بعد بھی کئی دن گذرنے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہ کیا دراصل اللہ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور قدرتی طور پر ان سے کہدیا گیا کہ تم تو بیٹھنے والوں کا ہی ساتھ دو ۔ ان کے ساتھ کو ناپسند رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے نامراد اعلیٰ درجے کے بزدل بڑے ہی ڈرپوک ہیں اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا کی مثل کو اصل کر دکھاتے اور ان کے ساتھ ہی تم میں بھی فساد برپا ہو جاتا ۔ یہ ادھر کی ادھر ادھر کی ادھر لگا بکر بجھا کر بات کا بتنگڑ بنا کر آپس میں پھوٹ اور عداوت ڈلوا دیتے اور کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے تمہیں آپس میں ہی الجھا دیتے ۔ ان کے ماننے والے ان کے ہم خیال ان کی پالیسی کو اچھی نظر سے دیکھنے والے خود تم میں بھی موجود ہیں وہ اپنے بھولے پن سے ان کی شرر انگیزیوں سے بےخبر رہتے ہیں جس کا نتیجہ مومنوں کے حق میں نہایت برا نکلتا ہے آپس میں شر و فساد پھیل جاتا ہے ۔ مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کے حامی اور ہمدرد ہیں یہ لوگ تمہاری جاسوسی کرتے رہتے ہیں اور تمہاری پل پل کی خبریں انہیں پہنچاتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ معنی کرنے سے وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو شروع آیت سے ہے یعنی ان لوگوں کا تمہارے ساتھ نہ نکلنا اللہ کو اس لئے بھی ناپسند رہا کہ تم میں بعضے وہ بھی ہیں جو ان کی مان لیا کرتے ہیں یہ تو بہت درست ہے لیکن ان کے نہ نکلنے کی وجہ کے لئے جاسوسی کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی ۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ مفسرین کا یہی قول ہے ۔ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اجازت طلب کرنے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور جد بن قیس بھی تھا اور یہی بڑے بڑے رؤسا اور ذی اثر منافق تھے اللہ نے انہیں دور ڈال دیا اگر یہ ساتھ ہوتے تو ان کے سامنے ان کی بات مان لینے والے وقت پر ان کے ساتھ ہو کر مسلمانوں کے نقصان کا باعث بن جاتے محمدی لشکر میں ابتری پھیل جاتی کیونکہ یہ لوگ وجاہت والے تھے اور کچھ مسلمان ان کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے ظاہری اسلام اور چرب کلامی پر مفتوں تھے اور اب تک ان کے دلوں میں ان کی محبت تھی ۔ یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے تھی سچ ہے پورا علم اللہ ہی کو ہے غائب حاضر جو ہو چکا ہو اور ہونے والا ہو سب اس پر روشن ہے ۔ اسی اپنے علم غیب کی بنا پر وہ فرماتا ہے کہ تم مسلمانو! ان کا نہ نکلنا ہی غنیمت سمجھو یہ ہوتے تو اور فساد و فتنہ برپا کرتے نہ خود جہاد کرتے نہ کرنے دیتے ۔ اسی لئے فرمان ہے کہ اگر کفار دوبارہ بھی دنیا میں لوٹائے جائیں تو نئے سرے سے پھر وہی کریں جس سے منع کئے جائیں اور یہ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہیں ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ اگر علم اللہ میں ان کے دلوں میں کوئی بھی خیر ہوتی تو اللہ تعالیٰ عزوجل انہیں ضرور سنا دیتا لیکن اب تو یہ حال ہے کہ سنیں بھی تو منہ موڑ کر لوٹ جائیں اور جگہ ہے کہ اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم آپس میں ہی موت کا کھیل کھیلو یا جلاوطن ہو جاؤ تو سوائے بہت کم لوگوں کے یہ ہرگز اسے نہ کرتے ۔ حالانکہ ان کے حق میں بہتر اور اچھا یہی تھا کہ جو نصیحت انہیں کی جائے یہ اسے بجا لائیں تاکہ اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم دیں اور راہ مستقیم دکھائیں ۔ ایسی آیتیں اور بھی بہت ساری ہیں ۔