Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَهۡلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡهُمۡ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ قَالَ وَمَنۡ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏‏ ﴿126﴾
جب ابراہیم نے کہا ، اے پروردگار تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں پھلوں کی روزیاں دے ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا :میں کافروں کو بھی تھوڑا فائدہ دوں گا ، پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف بے بس کر دوں گا ۔ یہ پہنچنے کی جگہ بُری ہے ۔
و اذ قال ابرهم رب اجعل هذا بلدا امنا و ارزق اهله من الثمرت من امن منهم بالله و اليوم الاخر قال و من كفر فامتعه قليلا ثم اضطره الى عذاب النار و بس المصير
And [mention] when Abraham said, "My Lord, make this a secure city and provide its people with fruits - whoever of them believes in Allah and the Last Day." [ Allah ] said. "And whoever disbelieves - I will grant him enjoyment for a little; then I will force him to the punishment of the Fire, and wretched is the destination."
Jab ibrahim ney kaha aey perwerdigar! Tu iss jagah ko aman wala shehar bana aur yahan kay bashindon ko jo Allah Taalaa per aur qayamat kay din per eman rakhney walay hon phalon ki roziyan dey. Allah Taalaa ney farmaya: mein kafiron ko bhi thora faeeda doon ga phir unhen aag kay azab ki taraf bey bus ker doon ga yeh phonchney ki jagah buri hai.
اور ( وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ : اے میرے پروردگار ! اس کو ایک پر امن شہر بنا دیجیے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں انہیں قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمایے ۔ اللہ نے کہا : اور جو کفر اختیار کرے گا اس کو بھی میں کچھ عرصے کے لیے لطف اٹھانے کا موقع دوں گا ، ( مگر ) پھر اسے دوزخ کے عذاب کی طرف کھینچ لے جاؤں گا ۔ اور وہ بدترین ٹھکانا ہے ۔
اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے میرے رب اس شہر کو امان والا کردے اور اس کے رہنے والوں کو طرح طرح کے پھلوں سے روزی دے جو ان میں سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائیں ( ف۲۳۰ ) فرمایا اور جو کافر ہوا تھوڑا برتنے کو اسے بھی دوں گا پھر اسے عذاب دوزخ کی طرف مجبور کردوں گا اور بہت بری جگہ ہے پلٹنے کی ۔
اور یہ کہ ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی : ’’ اے میرے رب ، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں ، انھیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے‘‘ ۔ جواب میں اس کے رب نے فرمایا ’’اور جو نہ مانے گا ، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے بھی دوں گا ، 127 مگر آخر کار اسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا ، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے‘‘ ۔
اور جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے عرض کیا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز ( یعنی ) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے ، ( اللہ نے ) فرمایا: اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت ( کے لئے ) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے ( اس کے کفر کے باعث ) دوزخ کے عذاب کی طرف ( جانے پر ) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :127 حضرت ابراہیم ؑ نے جب منصبِ امامت کے متعلق پوچھا تھا ، تو ارشاد ہوا تھا کہ اس منصب کا وعدہ تمہاری اولاد کے صرف مومن و صالح لوگوں کے لیے ہے ، ظالم اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ اس کے بعد جب حضرت ابراہیم ؑ رزق کے لیے دُعا کر نے لگے ، تو سابق فرمان کو پیشِ نظر رکھ کر انہوں نے صرف اپنی مومن اولاد ہی کے لیے دُعا کی ، مگر اللہ تعالیٰ نے جواب میں اس غلط فہمی کو فوراً رفع فرما دیا اور انہیں بتایا کہ امامتِ صالحہ اَور چیز ہے اور رزقِ دنیا دُوسری چیز ۔ امامتِ صالحہ صرف مومنینِ صالح کو ملے گی ، مگر رزقِ دنیا مومن و کافر سب کو دیا جائےگا ۔ اس سے یہ بات خود بخود نِکل آئی کہ اگر کسی کو رزقِ دنیا فراوانی کے ساتھ مِل رہا ہو ، تو وہ اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور وہی خدا کی طرف سے پیشوائی کا مستحق بھی ہے ۔
عہد جو مترادف حکم ہے یہاں عہد سے مراد وہ حکم ہے جس میں کہا گیا ہے گندی اور نجس اور بری چیزوں سے پاک رکھناعہد کا تعدیہ الی سے ہو تو معنی ہم نے وحی کی اور پہلے سے کہ دیا کہ پاک رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے بتوں سے بچانا غیر اللہ کی عبادت نہ ہونے دینا لغو کاموں فضول بکواس جھوٹی باتوں شرک و کفر ، ہستی اور مذاق سے اسے محفوظ رکھنا ۔ بھی اسی میں شامل ہے طائف کے ایک معنی طواف کرنے والوں کے ہیں دوسرے معنی باہر سے آنے والوں کے ہیں اس تقدیر پر عاکفین کے معنی مکہ کے باشندے ہوں گے ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ امیر وقت سے کہنا چاہئے کہ لوگوں کو بیت اللہ شریف میں سونے سے منع کریں کیونکہ ممکن ہے کوئی کسی وقت جنبی ہو جائے ممکن ہے کبھی آپس میں فضول باتیں کریں تو ہم نے سنا کہ انہیں نہ روکنا چاہئے ۔ ابن عمر انہیں بھی عاکفین کہتے تھے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ مسجد نبوی حضرت فاروق اعظم کے صاحبزادے حضرت عبداللہ سویا کرتے تھے وہ جوان اور کنوارے تھے ۔ رکع السجود سے مراد نمازی ہیں پاک رکھنے کا حکم اس واسطے دیا گیا کہ اس وقت بھی بت پرستی رائج تھی دوسرے اس لئے کہ یہ بزرگ اپنی نیتوں میں خلوص کی بات رکھیں دوسری جگہ ارشاد ہے آیت ( واذ بوانا ) الخ اس آیت میں بھی حکم ہے کہ میرے ساتھ شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو پاک صاف رکھنا فقہا کا اس میں اختلاف ہے کہ بیت اللہ کی نماز افضل ہے یا طواف؟ امام مالک فرماتے ہیں باہر والوں کے لئے طواف افضل ہے اور جمہور کا قول ہے کہ ہر ایک کے لیے نماز افضل ہے اس کی تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں ، مقصد اس سے مشرکین کو تنبیہہ اور تردید ہے کہ بیت اللہ تو خاص اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اس میں اوروں کی عبادت کرنا اور خالص اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اس سے روکنا کس قدر صریح بے انصافی ہے اور اسی لئے قرآن میں فرمایا کہ ایسے ظالموں کو ہم دردناک عذاب چکھائیں گے مشرکین کی اس کھلی تردید کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی تردید بھی اس آیت میں ہو گئی کہ اگر وہ ابراہیم و اسماعیل سلام اللہ علیہما کی افضلیت ، بزرگی اور نبوت کے قائل ہیں اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ شریف گھرانے کے متبرک ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جب وہ اسکے بھی قائل ہیں کہ یہ محض نماز و طواف و دعا اور عبادت اللہ کے لیے بنایا گیا ہے حج و عمرے اور اعتکاف وغیرہ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے تو پھر ان نبیوں کی تابعداری کے دعوے کے باوجود کیوں حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے؟ بلکہ خود موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر کا حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے؟ بلکہ خود موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر کا حج کیا جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے ۔ آیہ کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اور مسجدوں کو بھی پاک صاف رکھنا چاہئے اور جگہ قرآن میں ہے آیت ( فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ) 24 ۔ النور:36 ) اللہ تعالیٰ نے مسجدوں کو بلند کرنے کی اجازت دی ہے ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ان میں صبح شام اس کی تسبیح اس کے نیک بندے کرتے ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مسجدیں اسی کام کے لیے ہیں اور احادیث میں بہت ہی تاکید کے ساتھ مسجدوں کی پاکیزگی کا حکم آیا ہے امام ابن کثیر نے اس بارے میں ایک خاص رسالہ تصنیف فرمایا ہے ۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں سب سے پہلے کعبۃ اللہ فرشتوں نے بنایا تھا لیکن یہ سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا حرا ، طور سینا ، طور زیتا ، جبل لبنان اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن یہ بھی سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں شیث علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا لیکن یہ بھی اہل کتاب کی بات ہے ۔ حدیث شریف میں ہے حضرت ابراہیم نے مکہ کو حرام بنایا اور فرمایا میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ اس میں شکار نہ کھیلا جائے یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں یہاں ہتھیار نہ اٹھائے جائیں صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ لوگ تازہ پھل لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ ہمارے پھلوں میں ہمارے شہر میں ہمارے ناپ تول میں بھی برکت دے ۔ اے اللہ ابراہیم تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے رسول تھے میں بھی تیرا بندہ تیرا رسول ہیں انہوں نے مجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں تجھ سے مدینہ ( منورہ ) کے لیے دعا کرتا ہوں جیسے انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے کی تھی آپ کسی چھوٹے بچہ کو بلا کر وہ پھل اسے عطا فرما دیا کرتے ۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ابو طلحہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جاؤ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ہماری خدمت کے لیے آؤ ابو طلحہ مجھے لے کر حاضر ہوئے میں اب سفرو حضر میں حاضر خدمت رہنے لگا ۔ ایک مرتبہ آپ باہر سے آ رہے تھے جب احد پہاڑ پر نظر پڑی تو آپ نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ جب مدینہ نظر آیا تو فرمانے لگے یا اللہ میں اس کے دونوں کنارے کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اے اللہ ان کے مد اور صاع میں اور ناپ میں برکت دے اور روایت میں ہے یا اللہ جتنی برکت تونے مکہ میں دی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں دے اور روایت میں ہے مدینہ میں قتل نہ کیا جائے اور چارے کے سوا اور پتے بھی یہاں کے درختوں کے نہ جھاڑے جائیں اسی مضمون کی حدیثیں جن سے ثابت ہوتا ہے مدینہ بھی مثل مکہ کے حرم ہے اور بھی بہت سی ہیں ۔ یہاں ان احادیث کے وارد کرنے سے ہماری غرض مکہ شریف کی حرمت اور یہاں کا امن بیان کرنا ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ یہ شروع سے حرم اور امن ہے بعض کہتے ہیں خلیل اللہ کے زمانہ سے لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تب سے اس شہر کو حرمت و عزت والا بنایا ہے اب یہ قیامت تک حرمت و عزت والا ہی رہے گا اس میں جنگ وقتال کسی کو حلال نہیں میرے لئے بھی آج کے دن ہی ذرا سی دیر کے لیے حلال تھا اب وہ حرام ہی حرام ہے سنو اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اس کا شکار نہ بھگایا جائے اس میں کسی کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے جو پہنچوائی جائے اس کے لیے اٹھانا جائز ہے اسکی گھاس نہ کاٹی جائے دوسری روایت میں ہے کہ یہ حدیث آپ نے اثنائے خطبہ میں بیان فرمائی تھی اور حضرت عباس کے سوال پر آپ نے اذخر نامی گھاس کے کاٹنے کی اجازت دی تھی ۔ حضرت ابن شریح عدوی نے عمر بن سعید سے اس وقت کہا جب وہ مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہ اے امیر سن فتح مکہ والے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا جسے میرے کانوں نے سنا دل نے یاد رکھا اور میں نے آنکھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ مکہ کو رب ذوالجلال نے حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا ، کسی ایماندار کو اس میں خون بہانا اس کا درخت کاٹنا حلال نہیں ۔ اگر کوئی میری اس لڑائی کو دلیل بنائے تو کہ دینا کہ میرے لئے صرف آج ہی کے دن کی ایسی ساعت یہاں جہاد حلال تھا ۔ پھر اس شہر کی حرمت آ گئی ہے جیسے کل تھی ۔ خبردار ہر حاضر غائب کو یہ پہنچا دے لیکن عمر نے یہ حدیث سن کر صاف جواب دے دیا کہ میں تجھ سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں ۔ حرم نافرمان کو اور خونی کو اور بربادی کرنے والے کو نہیں بچانا ( بخاری مسلم ) ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہ سمجھے تطبیق یوں ہے کہ مکہ روز اول سے حرمت والا تھا لیکن اس حرمت کی تبلیغ حضرت خلیل اللہ نے کی جس طرح آنحضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت سے تھے جب کہ حضرت آدم کا خمیر گوندھ رکھا تھا بلکہ آپ اس وقت بھی خاتم الانبیاء لکھے ہوئے تھے لیکن تاہم حضرت ابراہیم نے آپ کی نبوت کی دعا کی کہ آیت ( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:129 ) ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج جو اللہ نے پوری کی اور تقدیر کی لکھی ہوئی وہ بات ظاہر و باہر ہوئی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ اپنی ابتدا نبوت کا تو کچھ ذکر کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میرے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ بن مریم کی بشارت اور میری ماہ کا خواب وہ دیکھتی ہیں کہ ان سے گویا ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا اور وہ نظر آنے لگے ۔ مدینہ منورہ افضل یامکہ مکرمہ؟ اس بات کا بیان کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ؟ جیسا کہ جمہور کا قول ہے جیسے کہ امام مالک اور ان کے تابعین کا مذہب ہے مدینہ افضل ہے مکہ سے ۔ اسے دونوں طرف کے دلائل کے ساتھ عنقریب ہم بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت ابراہیم دعا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنا یعنی یہاں کے رہنے والوں کو نڈر اور بےخوف رکھ ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا آیت ( وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا ) 3 ۔ آل عمران:97 ) اس میں جو آیا وہ امن والا ہو گیا اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اولم یروا ) الخ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والا بنایا لوگ اسکے آس پاس سے اچک لئے جاتے ہیں اور یہاں وہ پر امن رہتے ہیں ۔ اسی قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور اس مضمون کی بہت سی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں کہ مکہ شریف میں قتال حرام ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے ( صحیح مسلم ) آپ کی یہ دعا حرمت کعبۃ اللہ کی بنا سے پہلے تھی اس لیے کہا کہ اے اللہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا ، سورۃ ابراہیم میں یہی دعا ان لفظوں میں ہے آیت ( رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا ) 14 ۔ ابراہیم:35 ) شاید یہ دعا دوبارہ کی تھی ۔ جب بیت اللہ شریف تیار ہو گیا اور شہر بس گیا اور حضرت اسحاق جو حضرت اسمٰعیل سے تین سال چھوٹے تھے تولد ہو چکے اسی لیے اس دعا کے آخر میں ان کی پیدائش کا شکریہ بھی ادا کیا ومن کفر سے آخرتک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض نے اسے بھی دعا میں دخل کیا ہے تو اس تقدیر پر یہ مطلب ہوگا کہ کفار کو بھی تھوڑا سا فائدہ دے پھر انہیں عذاب کی طرف بےبس کر اس میں بھی حضرات ابراہیم کی خلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بری اولاد کے بھی مخالف ہیں اور اسے کلام اللہ ماننے کا یہ مطلب ہوگا کہ چونکہ امامت کا سوال جب اپنی اولاد کے لیے کیا اور ظالموں کی محرومی کا اعلان سن چکے اور معلوم ہو گیا کہ آپ پیچھے آنے والوں میں بھی اللہ کے نافرمان ہوں گے تو مارے ڈر کے ادب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں کو روزی طلب کرتے ہوئے صرف ایماندار اولاد کے لیے کہا ۔ ارشاد باری ہوا کہ دنیا کا فائدہ تو کفار کو بھی دیتا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا ) 17 ۔ الاسرآء:20 ) یعنی ہم انہیں اور ان کو بھی فائدہ دیں گے تیرے رب کی بخشش محدود نہیں اور جگہ ہے جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا کا کچھ فائدہ گو اٹھا لیں لیکن ہماری طرف آ کر اپنے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھیں گی اور جگہ ہے کافروں کا کفر تجھے غمگین نہ کرے جب یہ ہماری طرف لوٹیں گے تو ان کے اعمال پر ہم انہیں تنبیہہ کریں گے اللہ تعالیٰ سینوں کی چھپی باتوں کو بخوبی جانتا ہے ہم انہیں یونہی سا فائدہ پہنچا کر سخت غلیظ عذابوں کی طرف بےقرار کریں گے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُيُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:33 ) اگر یہ خطرہ نہ ہو تاکہ لوگو ایک ہی امت ہو جائیں تو ہم کافروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے اور ان کے گھر کے دروازے اور تخت جن پر ٹیکے لگائے بیٹے رہتے اور سونا بھی دیتے لیکن یہ سب دنیوی فوائد ہیں آخرت کا بھلا گھر تو صرف پرہیزگاروں کے لیے ہے یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے کہ ان کا انجام برا ہے یہاں ڈھیل پا لیں گے لیکن وہاں سخت پکڑ ہوگی ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ ) 22 ۔ الحج:45 ) بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر پکڑ لیا انجام کو تو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے گندی باتوں کو سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں لیکن تاہم وہ انہیں رزق و عافیت دے رہا ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) 11 ۔ ہود:102 ) اس جملہ کو حضرت ابراہیم کی دعا میں شامل کرنا شاذ قرأت کی بنا پر ہے جو ساتوں قاریوں کی قرأت کے خلاف ہے اور ترکیب سیاق و سباق بھی یہی ظاہر کرتی ہے واللہ اعلم ۔ اس لئے کہ قال کی ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف ہے اور اس شاذ قرأت کی بنا پر اس کے فاعل اور قائل بھی حضرت ابراہیم ہی ہوتے ہیں جو نظم کلام سے بظاہر مخالف ہے واللہ اعلم ۔ قواعد جمع ہے قاعدہ کی ترجمہ اس کا پایہ اور نیو ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والوں کو بنائے ابراہیمی کی خبر دو ، ایک قرأت میں واسمعیل کے بعد ویقولان بھی ہے اسی دلالت میں آگے لفظ مسلمین بھی ہے دونوں نبی نیک کام میں مشغول ہیں اور قبول نہ ہونے کا کھٹکا ہے تو اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں حضرت وہیب بن ورد جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو بہت روتے اور فرماتے آہ ! خلیل الرحمن جیسے اللہ کے مقبول پیغمبر اللہ کا کام اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اس کا گھر اس کے فرمان سے بناتے ہیں اور پھر خوف ہے کہ کہیں یہ قبولیت سے گر نہ جائے سچ ہے مخلص مومنوں کا یہی حال ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ ) 23 ۔ المومنون:60 ) وہ نیک کام کرتے ہیں صدقے خیرات کرتے ہیں لیکن پھر بھی خوف اللہ سے کانپتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ قبول نہ ہوں حضرت ابراہیم اٹھاتے تھے اور دعا حضرت اسماعیل کرتے تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ دونوں ہر ایک کام میں شریک تھے صحیح بخاری شریف کی ایک روایت اور بعض اور آثار بھی اس واقعہ کے متعلق یہاں ذکر کئے جانے کے قابل ہیں ابن عباس فرماتے ہیں کہ کمر بند باندھنا عورتوں نے حضرت اسمٰعیل کی والدہ محترمہ سے سیکھا ہے انہوں نے باندھا تھا کہ حضرت مائی سارہ کو ان کا نقش قدم نہ ملے انہیں اور ان کے جگر کے ٹکڑے اپنے اکلوتے فرزند حضرت اسمٰعیل کو لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نکلے جبکہ یہ پیارا بچہ دودھ پیتا تھا ۔