Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
قَالُوۡا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا‌ سُبۡحٰنَهٗ‌ ؕ هُوَ الۡـغَنِىُّ‌ ؕ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ ‌ؕ اِنۡ عِنۡدَكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍۢ بِهٰذَا ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿68﴾
وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ۔ سبحان اللہ! وہ تو کسی کا محتاج نہیں اس کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ۔ تمہارے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں ۔ کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے ۔
قالوا اتخذ الله ولدا سبحنه هو الغني له ما في السموت و ما في الارض ان عندكم من سلطن بهذا اتقولون على الله ما لا تعلمون
They have said, " Allah has taken a son." Exalted is He; He is the [one] Free of need. To Him belongs whatever is in the heavens and whatever is in the earth. You have no authority for this [claim]. Do you say about Allah that which you do not know?
Woh kehtay hain kay Allah aulad rakhta hai. Subhan Allah ! Who to kissi ka mohtaj nahi ussi ki milkiyat hai jo kuch aasmano mein hai aur jo kuch zamin mein hai. Tumharay pass iss per koi daleel nahi. Kiya Allah kay zimmay aisi baat lagatay ho jiss ka tum ilm nahi rakhtay.
۔ ( کچھ ) لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ، پاک ہے اس کی ذات ، وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے ۔ ( ٢٩ ) آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے ۔ تمہارے پاس اس بات کی ذرا بھی کوئی دلیل نہیں ہے ، کیا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں؟
بولے اللہ نے اپنے لیے اولاد بنائی ( ف۱۵۷ ) پاکی اس کو ، وہی بےنیاز ہے ، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ( ف۱۵۸ ) تمہارے پاس اس کی کوئی بھی سند نہیں ، کیا اللہ پر وہ بات بتاتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ،
لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے 66 ، سبحان اللہ! 67 وہ تو بے نیاز ہے ، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی مِلک ہے ۔ 68 تمہارے پاس اس قول کے لیے آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟
وہ کہتے ہیں: اللہ نے ( اپنے لئے ) بیٹا بنا لیا ہے ( حالانکہ ) وہ اس سے پاک ہے ، وہ بے نیاز ہے ۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کی مِلک ہے ، تمہارے پاس اس ( قولِ باطل ) کی کوئی دلیل نہیں ، کیا تم اللہ پر وہ ( بات ) کہتے ہو جسے تم ( خود بھی ) نہیں جانتے؟
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :66 اوپر کی آیات میں لوگوں کی اس جاہلیت پر ٹوکا گیا تھا کہ اپنے مذہب کی بنا علم کے بجائے قیاس و گمان پر رکھتے ہیں ، اور پھر کسی علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں ۔ اب اسی سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہل مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خدا کا بیٹا ٹھیرا لیا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :67 سبحان اللہ کلمہ تعجب کے طور پر کبھی اظہار حیرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، اور کبھی اس کے واقعی معنی ہی مراد ہوتے ہیں ، یعنی یہ کہ ” اللہ تعالیٰ ہر عیب سے منزہ ہے“ ۔ یہاں یہ کلمہ دونوں معنی دے رہا ہے ۔ لوگوں کے اس قول پر اظہار حیرت بھی مقصود ہے اور ان کی بات کے جواب میں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تو بے عیب ہے ، اس کی طرف بیٹے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :68 یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ بے عیب ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے ۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اس کی ملک ہیں ۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں: ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنّٰی ۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی کوئی جنس ہو اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے ۔ اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے کسی کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے خالی نہیں ۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لاولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اس نقصان کی ، جو اسے بے اولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے ، برائے نام ہی سہی ، کچھ تو تلافی کر دے ۔ یا پھر ان کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا بنا لیا ہے ۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ، بہرحال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب ، بہت سی کمزوریوں ، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے ۔ اسی بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب ، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کر رہے ہو ۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ ان حاجتوں سے بھی بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں ، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے ۔ صفات کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے ، مگر اس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ”جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے ۔
ساری مخلوق صرف اس کی ملکیت ہے جو لوگ اللہ کی اولاد مانتے تھے ، ان کے عقیدے کا بطلان بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اس سے پاک ہے ، وہ سب سے بےنیاز ہے ، سب اس کے محتاج ہیں ، زمین و آسمان کی ساری مخلوق اس کی ملکیت ہے ، اس کی غلام ہے ، پھر ان میں سے کوئی اس کی اولاد کیسے ہو جائے تمہارے اس جھوٹ اور بہتان کی خود تمہارے پاس بھی کوئی دلیل نہیں ۔ تم تو اللہ پر بھی اپنی جہالت سے باتیں بنانے لگے ۔ تمہارے اس کلمے سے تو ممکن ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہو جائے ، پہاڑ ٹوٹ جائیں کہ تم اللہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہو؟ بھلا اس کی اولاد کیسے ہوگی؟ اسے تو یہ لائق نہیں زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی غلامی میں حاضر ہو نے والی ہے ۔ سب اس کی شمار میں ہیں ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے ۔ ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے پیش ہو نے والا ہے ۔ یہ افترا پرداز گروہ ہر کامیابی سے محروم ہے ۔ دنیا میں انہیں کچھ مل جائے تو وہ عذاب کا پیش خیمہ اور سزاؤں کی زیادت کا باعث ہے ۔ آخر ایک وقت آئے گا جب عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے ۔ سب کا لوٹنا اور سب کا اصلی ٹھکانا تو ہمارے ہاں ہے ۔ یہ کہتے تھے اللہ کا بیٹا ہے ان کے اس کفر کا ہم اس وقت ان کو بدلہ چکھائیں گے جو نہایت سخت اور بہت بدترین ہوگا ۔