Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَفَارَ التَّنُّوۡرُۙ قُلۡنَا احۡمِلۡ فِيۡهَا مِنۡ كُلٍّ زَوۡجَيۡنِ اثۡنَيۡنِ وَاَهۡلَكَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَيۡهِ الۡقَوۡلُ وَمَنۡ اٰمَنَ‌ؕ وَمَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِيۡلٌ‏ ﴿40﴾
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے ( جانداروں میں سے ) جوڑے ( یعنی ) دو ( جانور ، ایک نر اور ایک مادہ ) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی اس کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے ۔
حتى اذا جاء امرنا و فار التنور قلنا احمل فيها من كل زوجين اثنين و اهلك الا من سبق عليه القول و من امن و ما امن معه الا قليل
[So it was], until when Our command came and the oven overflowed, We said, "Load upon the ship of each [creature] two mates and your family, except those about whom the word has preceded, and [include] whoever has believed." But none had believed with him, except a few.
Yahan tak kay jab humara hukum aa phoncha aur tanoor ubalney laga hum ney kaha kay iss kashti mein her qisam kay ( jaandaron mein say ) joray ( yani ) do ( janwar aik nurr aur aik mada ) sawar kera ley aur apney ghar kay logon ko bhi siwaye unn kay jin per pehlay say baat parr chuki hai aur sab eman walon ko bhi uss kay sath eman laney walay boht hi kum thay.
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابل پڑا ، ( ٢١ ) تو ہم نے ( نوح سے ) کہا کہ : اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو کے جوڑے سوار کرلو ( ٢٢ ) اور تمہارے گھر والوں میں سے جن کے بارے میں پہلے کہا جا چکا ہے ( کہ وہ کفر کی وجہ سے غرق ہوں گے ) ان کو چھوڑ کر باقی گھر والوں کو بھی ، اور جتنے لوگ ایمان لائے ہیں ان کو بھی ( ساتھ لے لو ) اور تھوڑے ہی سے لوگ تھے جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ۔
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آیا ( ف۸۵ ) اور تنور اُبلا ( ف۸٦ ) ہم نے فرمایا کشتی میں سوار کرلے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر و مادہ اور جن پر بات پڑچکی ہے ( ف۸۷ ) ان کے سوا اپنے گھر والوں اور باقی مسلمانوں کو اور اس کے ساتھ مسلمان نہ تھے مگر تھوڑے ( ف۸۸ )
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا 42 تو ہم نے کہا ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے 43 ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں ۔ 44 اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے ۔
یہاں تک کہ جب ہمارا حکمِ ( عذاب ) آپہنچا اور تنور ( پانی کے چشموں کی طرح ) جوش سے ابلنے لگا ( تو ) ہم نے فرمایا: ( اے نوح! ) اس کشتی میں ہر جنس میں سے ( نر اور مادہ ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی ( لے لو ) سوائے ان کے جن پر ( ہلاکت کا ) فرمان پہلے صادر ہو چکا ہے اور جو کوئی ایمان لے آیا ہے ( اسے بھی ساتھ لے لو ) ، اور چند ( لوگوں ) کے سوا ان کے ساتھ کوئی ایمان نہیں لایا تھا
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :42 اس کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک صحیح وہی ہے جو قرآن کے صریح الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ طوفان کی ابتدا ایک خاص تنور سے ہوئی جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ، پھر ایک طرف آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اور دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے چشمے پھوٹنے لگے ۔ یہاں صرف تنور کے ابل پڑنے کا ذکر ہے اور آگے چل کر بارش کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ مگر سورہ قمر میں اس کی تفصیل دی گئی ہے کہ فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآ ءٍ مُّنْھَمِرٍ وَّفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ۔ ” ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیئے جن سے لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے پھوٹ نکلے اور یہ دونوں طرح کے پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کر دیا گیا تھا ۔ نیز لفظ تنور پر الف لام داخل کرنےسے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تنور کو اس کام کی ابتدا کے لیے نامزد فرمایا تھا جو اشارہ پاتے ہی ٹھیک اپنے وقت پر ابل پڑا اور بعد میں طوفان والے تنور کی حیثیت سے معروف ہوگیا ، سورہ مومنون آیت ۲۷ میں تصریح ہے کہ اس تنور کو پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :43 یعنی تمہارے گھر کے جن افراد کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ کافر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں انہیں کشتی میں نہ بٹھاؤ ۔ غالبا یہ دو ہی شخص تھے ۔ ایک حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ابھی ذکر آتا ہے ۔ دوسری حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی جس کا ذکر سورہ تحریم میں آیا ہے ۔ ممکن ہے کہ دوسرے افراد خاندان بھی ہوں مگر قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :44 اس سے ان مؤرخین اور علماء انساب کے نظریہ کی تردید ہوتی ہے جو تمام انسانی نسلوں کا شجرہ نسب حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں تک پہنچاتے ہیں ۔ دراصل اسرائیلی روایات نے یہ غلط فہمی پھیلا دی ہے کہ اس طوفان سے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے تین بیٹوں اور ان کی بیویوں کے سوا کوئی نہ بچا تھا ( ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب پیدائش ٦ : ۱۸ و ۷ : ۷ و ۹ : ۱ و ۹ : ۱۹ ) ۔ لیکن قرآن متعدد مقامات پر اس کی تصریح کرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے خاندان کے سوا ان کی قوم کی ایک معتدبہ تعداد کو بھی اگرچہ وہ تھوڑی تھی ، اللہ نے طوفان سے بچا لیا تھا ۔ نیز قرآن بعد کی نسلوں کو صرف نوح علیہ السلام کی اولاد نہیں بلکہ ان سب لوگوں کو اولاد قرار دیتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کشتی میں بٹھایا تھا ، ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ( بنی اسرائیل آیت ۳ ) اور مِنْ ذُرِّ یَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ( مریم ، آیت ۵۸ ) ۔
قوم نوح پر عذاب الٰہی کا نزول حسب فرمان ربی آسمان سے موسلا دھار لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین سے بھی پانی ابلنے لگا اور ساری زمین پانی سے بھر گئی اور جہاں تک منظور رب تھا پانی بھر گیا اور حضرت نوح کو رب العالمین نے اپنی نگاہوں کے سامنے چلنے والی کشتی پر سوار کر دیا ۔ اور کافروں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچا دیا ۔ تنور کے ابلنے سے بقول ابن عباس یہ مطلب ہے کہ روئے زمین سے چشمے پھوٹ پڑے یہاں تک کہ آگ کی جگہ تنور میں سے بھی پانی ابل پڑا ۔ یہی قول جمہور سلف و خلف ہے کا ہے ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ تنور صبح کا نکلنا اور فجر کا روشن ہونا ہے یعنی صبح کی روشنی اور فجر کی چمک لیکن زیادہ غالب پہلا قول ہے ۔ مجاہد اور شعبی کہتے ہیں یہ تنور کوفے میں تھا ۔ ابن عباس سے مروی ہے ہند میں ایک نہر ہے ۔ قتادہ کہتے ہیں جزیرہ میں ایک نہر ہے جسے عین الوردہ کہتے ہیں ۔ لیکن یہ سب اقوال غریب ہیں ۔ الغرض ان علامتوں کے ظاہر ہوتے ہی نوح علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے ساتھ کشتی میں جاندار مخلوق میں سے ہر قسم کا ایک ایک جوڑا نر مادہ سوار کرلو ۔ کہا گیا ہے کہ غیر جاندار کے لیے بھی یہی حکم تھا ۔ جیسا نباتات ۔ کہا گیا ہے کہ پرندوں میں سب سے پہلے درہ کشتی میں آیا اور سب سے آخر میں گدھا سوار ہو نے لگا ۔ ابلیس اس کی دم میں لٹک گیا جب اس کے دو اگلے پاؤں کشتی میں آگئے اس کا اپنا دھڑ اٹھانا چاہا تو نہ اٹھا سکا کیونکہ دم پر اس ملعون کا بوجھ تھا ۔ حضرت نوح جلدی کر رہے تھے یہ بہتیرا چاہتا تھا مگر پچھلے پاؤں چڑھ نہیں سکتے تھے ۔ آخر آپ نے فرمایا آج تیرے ساتھ ابلیس بھی ہو آیا تب وہ چڑھ گیا اور ابلیس بھی اس کے ساتھ ہی آیا ۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ شیر کو اپنے ساتھ لے جانا مشکل ہو گیا ، آخر اسے بخار چڑھ آیا تب اسے سوار کر لیا ۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جب تمام مویشی اپنی کشتی میں سوار کر لیے تو لوگوں نے کہا شیر کی موجودگی میں یہ مویشی کیسے آرام سے رہ سکیں گے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخار ڈال دیا ۔ اس سے پہلے زمین پر یہ بیماری نہ تھی ۔ پھر لوگوں نے چوہے کی شکایت کی یہ ہمارا کھانا اور دیگر چیزیں خراب کر رہے ہیں تو اللہ کے حکم سے شیر کی چھینک میں سے ایک بلی نکلی جس سے چوہے دبک کر کونے کھدرے میں بیٹھ رہے ۔ حضرت نوح کو حکم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ کشتی میں بٹھالو مگر ان میں سے جو ایمان نہیں لائے انہیں ساتھ نہ لینا ۔ آپ کا لڑکا حام بھی انہیں کافروں میں تھا وہ الگ ہو گیا ۔ یا آپ کی بیوی کہ وہ بھی اللہ کے رسول کی منکر تھی اور تیری قوم کے تمام مسمانوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھالے لیکن ان مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ۔ ساڑھے نو سو سال کے قیام کی طویل مدت میں آپ پر بہت ہم کم لوگ ایمان لائے تھے اب عباس فرماتے ہیں کل اسی ( 80 ) آدمی تھے جن میں عورتیں بھی تھیں کعب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سب بہتر ( 72 ) اشخاص تھے ۔ ایک قول ہے صرف دس ( 10 ) آدمی تھے ایک قول ہے حضرت نوح تھے اور ان کے تین لڑکے تھے سام ، حام ، یافث اور چار عورتیں تھیں ۔ تین تو ان تینوں کی بیویاں اور چوتھی حام کی بیوی اور کہا گیا ہے کہ خود حضرت نوح کی بیوی ۔ لیکن اس میں نظر ہے ظاہر یہ ہے حضرت نوح کی بیوی ہلاک ہو نے والوں میں ہلاک ہوئی ۔ اس لیے کہ وہ اپنی قوم کے دین پر ہی تھی تو جس طرح لوط علیہ السلام کی بیوی قوم کے ساتھ ہلاک ہوئی اسی طرح یہ بھی ۔ واللہ اعلم واحکم ۔