Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
قَالَ يٰـنُوۡحُ اِنَّهٗ لَـيۡسَ مِنۡ اَهۡلِكَ ‌ۚاِنَّهٗ عَمَلٌ غَيۡرُ صَالِحٍ ‌‌ۖ فَلَا تَسۡــَٔــلۡنِ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ‌ ؕ اِنِّىۡۤ اَعِظُكَ اَنۡ تَكُوۡنَ مِنَ الۡجٰهِلِيۡنَ‏ ﴿46﴾
اللہ تعالٰی نے فرمایا اے نوح یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں تجھے ہرگز وہ چیز نہ مانگنی چاہیے جس کا تجھے مطلقا علم نہ ہو میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے ۔
قال ينوح انه ليس من اهلك انه عمل غير صالح فلا تسلن ما ليس لك به علم اني اعظك ان تكون من الجهلين
He said, "O Noah, indeed he is not of your family; indeed, he is [one whose] work was other than righteous, so ask Me not for that about which you have no knowledge. Indeed, I advise you, lest you be among the ignorant."
Allah Taalaa ney farmaya aey nooh yaqeenan woh teray gharaney say nahi hai uss kay kaam bilkul hi na shaista hain tujhay hergiz woh cheez na maangni chahaiye jiss ka tujhay mutlaqan ilm na ho mein tujhay naseehat kerta hun kay tu jahilon mein say apna shumar keraney say baaz rahey.
اللہ نے فرمایا : اے نوح ! یقین جانو وہ تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ناپاک عمل کا پلندہ ہے ۔ لہذا مجھ سے ایسے چیز نہ مانگو جس کی تمہیں خبر نہیں ، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نادانوں میں شامل نہ ہو ۔
فرمایا اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں نہیں ( ف۹۹ ) بیشک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ، تو مجھ سے وہ بات نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں ( ف۱۰۰ ) میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ نادان نہ بن ،
“ جواب میں ارشاد ہوا ” اے نوح ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے49 ، لہٰذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے ۔ 50
ارشاد ہو: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ، پس مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو ، میں تمہیں نصیحت کئے دیتا ہوں کہ کہیں تم نادانوں میں سے ( نہ ) ہو جانا
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :49 یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کے جسم کا کوئی عضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اس کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو ۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا ایک حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو ۔ اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تمہارے جسم کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ یہ سڑ چکا ہے ۔ اس جواب کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ فی الواقع وہ سڑا ہوا عضو جسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارے جسم کے لیے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کارآمد اعضاء ہیں نہ کہ سڑے ہوئے اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہ ہوں اور باقی جسم کو بھی خراب کر دینے والے ہوں ۔ لہٰذا جو عضو بگڑ چکا ہے وہ اب اس مقصد کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لیے اعضاء سے جسم کا تعلق مطلوب ہوتا ہے ۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ سے یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلا ق وعمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے ، یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کے بیٹا ہونے کی نفی کی جا رہی ہے ، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نیہں ہے ۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کا ایک رکن ہو تو ہوا کرے مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ۔ اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی یا قومی نزاع کا نہیں ہے کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نسل والے غارت کر دیے جائیں ، بلکہ یہ کفروایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صرف صالح بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دیے جائیں گے ۔ بیٹے کو بگڑا ہوا کام کہہ کر ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے ۔ ظاہر بین آدمی اولاد کو صرف اس لیے پرورش کرتا ہے اور اسے محبوب رکھتا ہے کہ وہ اس کی صلب سے یا اس کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ صالح ہو یا غیر صالح ، لیکن مومن کی نگاہ تو حقیقت پر ہونی چاہیے ۔ اسے تو اولاد کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ چند انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فطری طریقہ سے میرے سپرد کیا ہے تاکہ ان کو پال پوس کر اور تربیت دے کر اس مقصد کے لیے تیار کروں جس کے لیے اللہ نے دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے ۔ اب اگر اس کی تمام کوششوں اور محنتوں کے باوجود کوئی شخص جو اس کے گھر پیدا ہوا تھا ۔ اس مقصد کے لیے تیار نہ ہو سکا اور اپنے اس رب ہی کا وفادار خادم نہ بنا جس نے اس کو مومن باپ کے حوالے کیا تھا ، تو اس باپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری محنت و کوشش ضائع ہو گئی ، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسی اولاد کے ساتھ اسے کوئی دل بستگی ہو ۔ پھر جب یہ معاملہ اولاد جیسی عزیز ترین چیز کے ساتھ ہے تو دوسرے رشتہ دارں کے متعلق مومن کا نقطہ نظر جو کچھ ہو سکتا ہے ہو ظاہر ہے ۔ ایمان ایک فکری و اخلاقی صفت ہے ۔ مومن اسی صفت کے لحاظ سے مومن کہلاتا ہے ۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی رشتہ بجز اخلاقی و ایمانی رشتہ کے نہیں ہے ۔ گوشت پوست کے رشتہ دار اگر اس صفت میں اس کے ساتھ شریک ہیں تو یقینا وہ اس کے رشتہ دار ہیں ، لیکن اگر وہ اس صفت سے خالی ہیں تو مومن محض گوشت پوست کی حد تک ان سے تعلق رکھے گا ، اس کا قلبی و روحی تعلق ان سے نہیں ہو سکتا ۔ اور اگر ایمان و کفر کی نزاع میں وہ مومن کے مد مقابل آئیں تو اس کے لیے وہ اور اجنبی کافر یکساں ہوں گے ۔