Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( ف۱ )
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة یُوْسُف زمانہ نزول اور اجزائے مضمون : اس سورے کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانہ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں یا جلا وطن کریں یا قید کر دیں ۔ اس زمانہ میں بعض کفار مکہ نے ( غالبا یہودیوں کے اشارے پر ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا ۔ چونکہ اہل عرب اس قصہ سے ناواقف تھے ، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایا جاتا تھا ، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا ، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے ، یا اس وقت ٹال مٹول کر نے کے بعد کسی یہودیی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے ، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائیگا ۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی ۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فورا اسی وقت یوسف علیہ السلام کا یہ پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کر دیا ، بلکہ برآں اس قصے کو قریش کے اس معاملہ پر چسپاں بھی کر دیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر رہے تھے ۔ مقاصد نزول : اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا تھا : ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت ، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے ، اور ان کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے ۔ اس مقصد کو آیات ۳ ، ۷ میں بھی صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے اور آیات ١۰۲ - ١۰۳ میں بھی پورے زور کے ساتھ اس کی تصریح کی گئی ہے ۔ دوسرے یہ کہ سرداران قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادران یوسف اور یوسف علیہ السلام کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہو جو یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا ۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخرکار اسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا ، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو ۔ یہ مقصد بھی سورہ کے آغاز میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا لَقَدْکَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخوَتِہۤ١اٰیٰتٌ لِّلسَّاۤئِلِینَ ۔ ” یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں“ ۔ حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے قصے کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے معاملے پر چسپاں کر کے قرآن مجید نے گویا ایک صریح پیش گوئی کر دی تھی جسے آئندہ دس سال کے واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کر کے دکھا دیا ۔ اس سورہ کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے ہوں گے کہ قریش والوں نے برادران یوسف کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو مجبورا ان سے جان بچا کر مکہ سے نکلنا پڑا ۔ پھر ان کی توقعات کے بالکل خلاف آپ کو بھی جلا وطنی میں ویسا ہی عروج و اقترار نصیب ہوا جیسا یوسف علیہ السلام کو ہوا تھا ۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پیش آیا جو مصر کے پایہ تخت میں یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں کی آخری حضوری کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ وہاں جب برادران یوسف علیہ السلام انتہائی عجز و درماندگی کی حالت میں ان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تَصَدَّقْ عَلَینَا ط اِنَّ اللہَ یَجزِی المُتَصَدِّقِینَ ، ” ہم پر صدقہ کیجیئے ، اللہ صدقہ کرنے والوں کو نیک جزا دیتا ہے“ ، تو یوسف علیہ السلام نے انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں معاف کر دیا اور فرمایا لَا تَثرِیبَ عَلَیکُمُاالیَومَ ، یَغفِرُ اللہُ لَکُم وَھُوَ اَرحَمُ الرّٰحِمِینَ ” آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے ، وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے“ ۔ اسی طرح جب یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شکست خوردہ قریش سرنگوں کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایک ایک ظلم کا بدلہ لینے پر قادر تھے تو آپ نے ان سے پوچھا ” تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا ؟ “ انہوں نے عرض کیا اخ کریم و ابن اخ کریم ”آپ ایک عالی ظرف بھائی ہیں ، اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں“ ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فانی اقول لکم کما قال یوسف لاخوتہ ، لا تثرب علیکم الیوم ، اذھبوا فانتم الطلقاء ” میں تمہیں وہی جواب دیتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، جاؤ تمہیں معاف کیا“ ۔ مباحث و مسائل : یہ دو پہلو تو اس سورہ میں مقصدی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن اس قصے کو بھی قرآن مجید محض قصہ گوئی و تاریخ نگاری کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے قاعدے کے مطابق وہ اسے اپنی اصل دعوت کی تبلیغ میں استعمال کرتا ہے ۔ وہ اس پوری داستان میں یہ بات نمایاں کر کے دکھاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام کا دین وہی تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور اسی چیز کی طرف وہ بھی دعوت دیتے تھے جس کی طرف آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں ۔ پھر وہ ایک طرف حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کے کردار اور دوسری طرف برادران یوسف ، قافلہ تجار ، عزیز مصر ، اس کی بیوی ، بیگمات مصر اور حکام مصر کے کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ دیتا ہے اور محض اپنے انداز بیان سے سامعین و ناظرین کے سامنے یہ خاموش سوال پیش کرتا ہے کہ دیکھو ، ایک نمونے کے کردار تو وہ ہیں جو اسلام ، یعنی خدا کی بندگی اور حساب آخرت کے یقین سے پیدا ہوتے ہیں ، اور دوسرے نمونے کے کردار وہ ہیں جو کفر و جاہلیت اور دنیا پرستی اور خدا و آخرت سے بے نیازی کے سانچوں میں ڈھل کر تیار ہوتے ہیں ۔ اب تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ وہ ان میں سے کس نمونے کو پسند کرتا ہے ۔ پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہو کر رہتا ہے ۔ انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجہ میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا ۔ مگر فی الواقع انہوں نے یوسف علیہ السلام کو اس بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لاکھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف علیہ السلام کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا ۔ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کو قید خانے بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی ، مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروائے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانی پڑی ۔ یہ محض دوچار مستثنٰی واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے ، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی ۔ بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اور یقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے ، اللہ اسی تدبیر میں سے اس کے اٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے ، اور ان لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنہوں نے اسے گرانا چاہا تھا ۔ اور اسی طرح اس کے برعکس ، خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی ، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں الٹی پڑتی ہیں ، اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔ اس حقیقت حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر ، دونوں میں ان حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانون الہٰی میں اس کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں ۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہوگا ۔ اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقینا رسوا ہوگا ہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے ۔ دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے ۔ جو لوگ حق اور صداقت کے لیے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انہیں ہٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انہیں اس سے غیر معمولی تسکین حاصل ہوگی ، اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعا ہراساں نہ ہوں گے ، بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے چائیں گے ۔ مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو ، تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کر سکتا ہے ۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے ۔ ١۷ برس کی عمر ، تن تنہا ، بے سروسامان ، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے ہیں ۔ تاریخ کے اس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا جس کی میعاد سزا بھی کوئی نہ تھی ۔ اس حالت تک گرا دیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کرلیتے ہیں ۔ تاریخی و جغرافیائی حالات : اس قصے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصرا اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں: حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے ، حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پرپوتے تھے ۔ بائیبل کے بیان کے مطابق ( جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے ) حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے چار بیویوں سےتھے ، حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے چھوٹے بھائی بنیامین ایک بیوی سے ، اور باقی دس دوسری بیویوں سے ۔ فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام حبرون ( موجودہ الخیل ) کی وادی میں تھی جہاں حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام رہا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی کچھ زمین سکم ( موجودہ نابلس ) میں تھی ۔ بائیبل کے علماء کی تحقیق اگر درست مانی جائے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش سن ١۹۰٦قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں ہوئی اور سن ١۸۹۰ ق م کے قریب زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصہ کی ابتدا ہوئی ہے ، یعنی خواب دیکھنا اور پھر کنوئیں میں پھینکا جانا ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر سترہ برس کی تھی ۔ جس کنویں میں وہ پھینکے گئے وہ بائیبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سکم کے شمال میں دُوتَن ( موجودہ دُثان ) کے قریب واقع تھا ، اور جس قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا وہ جلعاد ( شرق اردن ) سے آرہا تھا اور مصر کی طرف عازم تھا ۔ ( جلعاد کے کھنڈر اب بھی دریائے اردن کے مشرق میں وادی الیابس کے کنارے واقع ہیں ) ۔ مصر پر اس زمانے میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چرواہے بادشاہوں ( Hyksos Kings ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جاکر ۲ ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں سلطنت مصر پر قابض ہوگئے تھے ۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے ”عمالیق “ کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے ۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب سے انہیں وہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے کا موقع مل گیا تھا ۔ یہی سبب ہوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے ، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے گئے اور ان کو وہاں بڑا اثر و رسوخ حاصل ہوا ، کیونکہ وہ ان غیر ملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے ۔ پندرھویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملا بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا ۔ اسی دور کی طرف سورة مائدہ آیت ۲۰ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اِذ جَعَلَ فِیکُم اَنبِیَآءَ وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی جس نے بِکسُوس اقتدار کا تختہ الٹ دیا ۔ اڑہائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیے گئے ۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان برسر اقتدار آگیا اور اس نے عمالقہ کے زمانے کی یادگاروں کو چن چن کر مٹا دیا اور بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے ۔ مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چرواہے بادشاہوں نے مصری دیوتاؤں کو تسلیم نہیں کیا تھا ، بلکہ اپنےدیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم عصر بادشاہ کو ”فرعون“ کے نام سے یاد نہیں کرتا ۔ کیونکہ ”فرعون“ مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے ۔ لیکن بائیبل میں غلطی سے اس کو بھی ”فرعون“ ہی کا نام دیا گیا ہے ۔ شاید اس کے مرتَب کرنے والے سمجھتے ہوں گے کہ مصر کے سب بادشاہ ”فراعنہ“ ہی تھے ۔ موجودہ زمانہ کے محققین ، جنہوں نے بائیبل اور مصری تاریخ کا تقابل کیا ہے ، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چرواہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس ( Apophis ) ملتا ہے ، وہی حضرت یوسف علیہ السلام کا ہم عصر تھا ۔ مصر کا دارالسلطنت اس زمانہ میں ممفِس ( منف ) تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں ١٤ میل کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام ١۷ ، ١۸ سال کی عمر میں وہاں پہنچے ۔ دو تین سال عزیز مصر کے گھر رہے ۔ آٹھ نو سال جیل میں گزارے ۔ ۳۰ سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا ہوے اور ۸۰ سال تک بلا شرکت غیرے تمام مملکت مصر پر حکومت کرتے رہے ۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلا لیا اور اس علاقے میں آباد کیا جو دمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے ۔ بائیبل میں اس علاقے کا نام جشن یا گوشن بتایا گیا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے کر جانا ۔ یوسف علیہ السلام کے قصے کی جو تفصیلات بائیبل اور تَلمُود میں بیان کی گئی ہیں ان سے قرآن کا بیان بہت کچھ مختلف ہے ، مگر قصے کو اہم اجزاء میں تینوں متفق ہیں ۔ ہم اپنے حواشی میں حسب ضرورت ان اختلافات کو واضح کرتے جائیں گے ۔
اس سورت کی فضلیت میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے ۔ کہ اپنے ماتحتوں کو سورہ یوسف سکھاؤ ۔ جو مسلمان اسے پڑھے یا اسے اپنے گھر والوں کو سکھائے یا اپنے ماتحت لوگوں کو سکھائے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ سکرات موت آسان کرتا ہے اور اسے اتنی قوت بخشتا ہے کہ وہ کسی مسلمان سے حسد نہ کرے ۔ لیکن اس کی سند بہت ہی ضعیف ہے ۔ اس کا ایک متابع ابن عساکر میں ہے لیکن اس کی بھی تمام سندیں منکر ہیں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دلائل النبوۃ میں ہے کہ جب یہودیوں نے یہ سورت سنی تو وہ مسلمان ہوگئے ۔ کیونکہ انکے ہاں بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان تھا ۔ یہ روایت کلبی کی ابو صالح سے اور ان کی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے ہے ۔