Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿2﴾
یقیناً ہم نے اس کوقرآن عربی زبان میں نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو ۔
انا انزلنه قرءنا عربيا لعلكم تعقلون
Indeed, We have sent it down as an Arabic Qur'an that you might understand.
Yaqeenan hum ney iss quran ko arabi nazil farmaya hai kay tum samajh sako.
ہم نے اس کو ایسا قرآن بنا کر اتارا ہے جو عربی زبان میں ہے ، تاکہ تم سمجھ سکو ۔
بیشک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو ،
ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن 1 بنا کر عربی زبان میں تا کہ تم ﴿ اہل عرب﴾ اس کو اچھی طرح سمجھ سکو ۔ 2
بیشک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم ( اسے براہِ راست ) سمجھ سکو
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :1 قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے ۔ اس کے اصل معنی ہیں”پڑھنا“ ۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہ کمال پایا جاتا ہے ۔ مثلا جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کے بجائے ”بہادری“ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں ۔ پس اس کتاب کا نام ”قرآن“ ( پڑھنا ) رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :2 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہل عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے ۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ ” اے اہل عرب ، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جا رہی ہیں ، تمہاری اپنی زبان میں ہیں ، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کر سکتے ہو کہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو ہیں ، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں ، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں“ ۔ بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہل عرب کے لیے ہے ، غیر اہل عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے ، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑ دیا جاتا ہے ۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی ، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہوگی کہ پہلے وہ اس قوم کو اپنی تعلیم سے پوعی طرح متأثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کر رہا ہے ، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے ۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا ۔