Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَمَاتُوۡا وَهُمۡ كُفَّارٌ اُولٰٓٮِٕكَ عَلَيۡهِمۡ لَعۡنَةُ اللّٰهِ وَالۡمَلٰٓٮِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿161﴾
یقیْنًا جو کفار اپنے کفر میں ہی مر جائیں ، ان پر اللہ تعالٰی کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔
ان الذين كفروا و ماتوا و هم كفار اولىك عليهم لعنة الله و الملىكة و الناس اجمعين
Indeed, those who disbelieve and die while they are disbelievers - upon them will be the curse of Allah and of the angels and the people, all together,
Yaqeenan jo kuffaar apney kufur mein hi marr jayen unn per Allah Taalaa ki farishton ki aur tamam logon ki laanat hai.
بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے ، ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور سارے انسانوں کی لعنت ہے
بیشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پر لعنت ہے اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی ، ( ف۲۹۰ )
جن لوگوں نے کفر کا رویہ 161 اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی ، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔
بیشک جنہوں نے ( حق کو چھپا کر ) کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہی تھے ان پر اﷲ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :161 ”کفر“ کے اصل معنی چھُپانے کے ہیں ۔ اسی سے انکار کا مفہُوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا ۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا ، قبول کرنا ، تسلیم کرلینا ۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا ، انکار کرنا ۔ قرآن کی رُو سے کفر کے رویّہ کی مختلف صُورتیں ہیں: ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے ، یا اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبُود ماننے سے انکار کر دے ، یا اسے واحد مالک اور معبُود نہ مانے ۔ دُوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبعِ علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔ تیسرے یہ کہ اُصُولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے ، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے ، انہیں تسلیم نہ کرے ۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصّبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے ۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد ، اخلاق اور قوانینِ حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو ، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے ۔ چھٹے یہ کہ نظریّے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکامِ الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے ، اور دُنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے ۔ یہ سب مختلف طرزِ فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفرانِ نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے ۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو ، اس کے احسان کی قدر کرے ، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے ، اور اس کا دل اپنے مُحسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو ۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفرانِ نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے مُحسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے ، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے ، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے ۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعمُوم احسان فراموشی ، نمک حرامی ، غدّاری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔