Surah

Information

Surah # 12 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 53 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 1, 2, 3, 7, from Madina
وَرَفَعَ اَبَوَيۡهِ عَلَى الۡعَرۡشِ وَخَرُّوۡا لَهٗ سُجَّدًا‌ۚ وَقَالَ يٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاۡوِيۡلُ رُءۡيَاىَ مِنۡ قَبۡلُقَدۡ جَعَلَهَا رَبِّىۡ حَقًّا‌ؕ وَقَدۡ اَحۡسَنَ بِىۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِىۡ مِنَ السِّجۡنِ وَجَآءَ بِكُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّيۡطٰنُ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَ اِخۡوَتِىۡ‌ؕ اِنَّ رَبِّىۡ لَطِيۡفٌ لِّمَا يَشَآءُ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿100﴾
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے تب کہا ابا جی! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا ، اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے والا ہے اور وہ بہت علم و حکمت والا ہے ۔
و رفع ابويه على العرش و خروا له سجدا و قال يابت هذا تاويل رءياي من قبل قد جعلها ربي حقا و قد احسن بي اذ اخرجني من السجن و جاء بكم من البدو من بعد ان نزغ الشيطن بيني و بين اخوتي ان ربي لطيف لما يشاء انه هو العليم الحكيم
And he raised his parents upon the throne, and they bowed to him in prostration. And he said, "O my father, this is the explanation of my vision of before. My Lord has made it reality. And He was certainly good to me when He took me out of prison and brought you [here] from bedouin life after Satan had induced [estrangement] between me and my brothers. Indeed, my Lord is Subtle in what He wills. Indeed, it is He who is the Knowing, the Wise.
Aur apney takht per apney maa baap ko ooncha bithaya aur sab uss kay samney sajday mein girr gaye. Tab kaha kay abba ji! Yeh meray pehlay kay khuwab ki tabeer hai meray rab ney ussay sacha ker dikhaya uss ney meray sath bara ehsan kiya jab kay mujhay jail khaney say nikala aur aap logon ko sehra say ley aaya uss ikhtilaaf kay baad jo shetan ney mujh mein aur meray bhaiyon mein daal diya tha. Mera rab jo chahaye uss kay liye behtareen tadbeer kerney wala hai. Aur woh boht ilm-o-hikmat wala hai.
اور انہوں نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ، اور وہ سب ان کے سامنے سجدے میں گر پڑے ، ( ٦٢ ) اور یوسف نے کہا : ابا جان ! یہ میرے پرانے خواب کی تعبیر ہے جسے میرے پروردگار نے سچ کردکھایا ، ( ٦٣ ) اور اس نے مجھ پر بڑا احسان فرمایا کہ مجھے قید خانے سے نکال دیا ، اور آپ لوگوں کو دیہات سے یہاں لے آیا ۔ حالانکہ اس سے پہلے شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال دیا تھا ، ( ٦٤ ) حقیقت یہ ہے کہ میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے ، اس کے لیے بڑی لطیف تدبیریں کرتا ہے ۔ بیشک وہی ہے جس کا علم بھی کامل ہے ، حکمت بھی کامل ۔
اور اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب ( ف۲۲۰ ) اس کے لیے سجدے میں گرے ( ف۲۲۱ ) اور یوسف نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے ( ف۲۲۲ ) بیشک اسے میرے رب نے سچا کیا ، اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا ( ف۲۲۳ ) اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرادی تھی ، بیشک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے بیشک وہی علم و حکمت والا ہے ( ف۲۲٤ )
﴿شہر میں داخل ہونے کے بعد﴾ اس نے اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھک گئے ۔ 70 یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا ابا جان ، یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا ، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا ۔ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا ، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لاکر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا ۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا ربّ غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیّت پوری کرتا ہے ، بے شک وہ علیم اور حکیم ہے ۔
اور یوسف ( علیہ السلام ) نے اپنے والدین کو اوپر تخت پر بٹھا لیا اور وہ ( سب ) یوسف ( علیہ السلام ) کے لئے سجدہ میں گر پڑے ، اور یوسف ( علیہ السلام ) نے کہا: اے ابا جان! یہ میرے ( اس ) خواب کی تعبیر ہے جو ( بہت ) پہلے آیا تھا ( اکثر مفسرین کے نزدیک اسے چالیس سال کا عرصہ گزر گیا تھا ) اور بیشک میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا ہے ، اور بیشک اس نے مجھ پر ( بڑا ) احسان فرمایا جب مجھے جیل سے نکالا اور آپ سب کو صحرا سے ( یہاں ) لے آیا اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد پیدا کر دیا تھا ، اور بیشک میرا رب جس چیز کو چاہے ( اپنی ) تدبیر سے آسان فرما دے ، بیشک وہی خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
۷۰ ۔ اس لفظ سجدہ سے بکثرت لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے ، حتی کہ ایک گروہ نے تو اسی سے استدلال کر کے بادشاہوں اور پیروں کے لیے سجدہ تحیۃ اور سجدہ تعظیمی کا جواز نکال لیا ، دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے اس کی یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں صرف سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام تھا ، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبہ سے خالی ہو تو وہ خدا کے سوا دوسروں کو بھی کیا جاسکتا تھا ، البتہ شریعت محمدی میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کردیا گیا ، لیکن ساری غلط فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ سجدہ کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ، یعنی ہاتھ ، گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا ، حالانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے ، قدیم تہذیب میں یہ عام طریقہ تھا ( اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے ) کہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے ، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے ، اسی جھکاؤ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں ( Bow ) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ، بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم کو ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ طریقہ آداب تہذیب میں شامل تھا ، چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آٹے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے ۔ عربی بائیبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: فلما نظر رکض لاستقبالھم من باب الخیمۃ و سجد الی الارض ( تکوین: ۱۸ ۔ ۳ ) پھر جس موقع پر یہ ذکر آتا ہے کہ بنی حت نے حضرت سارہ کے دفن کے لیے قبر کی زمین مفت دی وہاں اردو بائٰیبل کے الفاظ یہ ہیں: ابرھام نے اٹھ کر اور بنی حت کے آگے جو اس ملک کے لوگ ہیں ، آداب بجا لاکر ان سے یوں گفتگو کی ، اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غار نذر میں پیش کردیا تب ابرھام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا ، مگر عربی ترجمہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجا لانے اور جھکنے کے لیے سجدہ کرنے ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ فقام ابراہیم و سجد لشعب الارض لبنی حت ( تکوین: ۲۳ ۔ ۷ ) فسجد ابراہیم امام شعب الارض ( ۲۳ ۔ ۱۲ ) انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں: Bowed himself toward the ground Bowed himself to thi people of the land and abraham bowed اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جو اب اسلامی اصطلاح کے لفظ سجدہ سے سمجھا جاتا ہے ۔ جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کو جانے بغیر اس کی تاویل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غٰیر اللہ کو تعظیمی سجدہ کرنا یا سجدہ تحیۃ بجالانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے ۔ اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے ، تو وہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں رہا ہے ۔ بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامرا بنایا اور حکم دیا کہ سب لوگ اس کو سجدہ تعظیمی بجا لایا کریں تو مرد کی جو بنی اسرائیل کے اولیاء میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا ( آستر ۳: ۱ ۔ ۲ ) تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے: بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے؟ ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں ، اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو ، کیا ایک فانی اسنان جو کل خاک میں مل جانے والا ہے اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے؟ کیا میں اس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ، کل بچہ تھا آج جوان ہے کل بوڑھا ہوگا اور پرسوں مر جائے گا ؟ نہیں میں تو اس ازلی و ابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی و قیوم ہے ۔ وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے ، میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاؤں گا ، اور کسی کی نہیں ۔ یہ تقریر نزول قرآن سے تقریبا ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی سجدہ کرنا جائز ہے ۔