Surah

Information

Surah # 13 | Verses: 43 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 96 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَللّٰهُ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيَقۡدِرُ‌ؕ وَفَرِحُوۡا بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا فِى الۡاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ‏ ﴿26﴾
اللہ تعالٰی جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے یہ تو دنیا کی زندگی میں مست ہوگئے حالانکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت ( حقیر ) پونجی ہے ۔
الله يبسط الرزق لمن يشاء و يقدر و فرحوا بالحيوة الدنيا و ما الحيوة الدنيا في الاخرة الا متاع
Allah extends provision for whom He wills and restricts [it]. And they rejoice in the worldly life, while the worldly life is not, compared to the Hereafter, except [brief] enjoyment.
Allah Taalaa jiss ki rozi chahata hai barhata hai aur ghatata hai yeh to duniya ki zindagi mein mast hogaye halankay duniya aakhirat kay muqablay mein nihayat ( haqeer ) poonji hai.
اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں وسعت کردیتا ہے ، اور ( جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگی کردیتا ہے ، ( ٢٥ ) یہ ( کافر ) لوگ دنیوی زندگی پر مگن ہیں ، حالانکہ آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ معمولی سی پونجی ہے ۔
اللہ جس کے لیے چاہے رزق کشادہ اور ( ف۷٤ ) تنگ کرتا ہے ، اور کافر دنیا کی زندگی پر اترا گئے ( نازاں ہوئے ) ( ف۷۵ ) اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابل نہیں مگر کچھ دن برت لینا ،
اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے ۔ 42 یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں ، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلےمیں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ؏ ۳
اﷲ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور ( جس کے لئے چاہتا ہے ) تنگ کر دیتا ہے ، اور وہ ( کافر ) دنیا کی زندگی سے بہت مسرور ہیں ، حالانکہ دنیوی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک حقیر متاع کے سوا کچھ بھی نہیں
سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :42 اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عام جہلاء کی طرح کفار مکہ بھی عقیدہ و عمل کے حسن و قبح کو دیکھنے کے بجائے امیری اور غریبی کے لحاظ سے انسانوں کی قدر و قیمت کا حساب لگاتے تھے ۔ ان کا گمان یہ تھا کہ جسے دنیا میں خوب سامان عیش مل رہا ہے وہ خدا کا محبوب ہے ، خواہ ہو کیسا ہی گمراہ و بدکار ہو ۔ اور جو تنگ حال ہے وہ خدا کا مغضوب ہے خواہ وہ کیسا ہی نیک ہو ۔ اسی بنیاد پر وہ قریش کے سرداروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غریب ساتھیوں پر فضیلت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو ، اللہ کس کے ساتھ ہے ۔ اس پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے جس میں بے شمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم ۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاظ سے انسانوں کے اخلاقی و معنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے ۔ انسانوں کے درمیان فرق مراتب کی اصل بنیاد اور ان کی سعادت و شقاوت کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ کس نے فکر و عمل کی صحیح راہ اختیار کی اور کس نے غلط ، کس نے عمدہ اوصاف کا اکتساب کیا اور کس نے برے اوصاف کا ۔ مگر نادان لوگ اس کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کس کو دولت زیادہ ملی اور کس کو کم ۔
مسئلہ رزق اللہ جس کی روزی میں کشادگی دینا چاہے قادر ہے ، جسے تنگ روزی دینا چاہے قادر ہے ، یہ سب کچھ حکمت وعدل سے ہو رہا ہے ۔ کافروں کو دنیا پر ہی سہارا ہو گیا ۔ یہ آخرت سے غافل ہو گئے سمجھنے لگے کہ یہاں رزق کی فراوانی حقیقی اور بھلی چیز ہے حالانکہ دراصل یہ مہلت ہے اور آہستہ پکڑ کی شروع ہے لیکن انہیں کوئی تمیز نہیں ۔ مومنوں کو جو آخرت ملنے والی ہے اس کے مقابل تو یہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں یہ نہایت ناپائیدار اور حقیر چیز ہے آخرت بہت بڑی اور بہتر چیز ۔ لیکن عموما لوگ دینا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ اسے کوئی سمندر میں ڈبو لے اور دیکھے کہ اس میں کتنا پانی آتا ہے ؟ جتنا یہ پانی سمندر کے مقابلے پر ہے اتنی ہی دنیا آخرت کے مقابلے میں ہے ( مسلم ) ایک چھوٹے چھوٹے کانوں والے بکری کے مرے ہوئے بچے کو راستے میں پڑا ہوا دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسا یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جن کا یہ تھا اس سے بھی زیادہ بیکار اور ناچیز اللہ کے سامنے ساری دنیا ہے ۔