يُخٰدِعُوۡنَ اللّٰهَ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا يَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَؕ ﴿9﴾
وہ اللہ تعالٰی کو اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں ۔
يخدعون الله و الذين امنوا و ما يخدعون الا انفسهم و ما يشعرون
They [think to] deceive Allah and those who believe, but they deceive not except themselves and perceive [it] not.
Woh Allah Taalaa ko aur eman walon ko dhoka detay hain lekin dar-asal woh khud apney aap ko dhoka dey rahey hain magar samajhtay nahi.
وہ اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ( واقعی ) ایمان لاچکے ہیں دھوکا دیتے ہیں اور ( حقیقت تو یہ ہے کہ ) وہ اپنے سوا کسی اور کو دھوکا نہیں دے رہے لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے ( ١١ )
فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو ( ف۱۳ ) اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں ۔
وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں ، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے 11 ۔
وہ اللہ کو ( یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ) ٭ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر ( فی الحقیقت ) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :11
یعنی وہ اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مُبتلا کر رہے ہیں کہ ان کی یہ منافقانہ روش ان کے لیے مفید ہوگی ، حالانکہ دراصل یہ ان کو دنیا میں بھی نقصان پہنچائے گی اور آخرت میں بھی ۔ دنیا میں ایک منافق چند روز کے لیے لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے مگر ہمیشہ اس کا دھوکا نہیں چل سکتا ۔ آخر کار اس کی منافقت کا راز فاش ہو کر رہتا ہے ۔ اور پھر معاشرے میں اس کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہتی ۔ رہی آخرت ، تو وہاں ایمان کا زبانی دعویٰ کوئی قیمت نہیں رکھتا اگر عمل اس کے خلاف ہو ۔