Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَ‌ؕ وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَيۡرٌ لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿184﴾
گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو ۔
اياما معدودت فمن كان منكم مريضا او على سفر فعدة من ايام اخر و على الذين يطيقونه فدية طعام مسكين فمن تطوع خيرا فهو خير له و ان تصوموا خير لكم ان كنتم تعلمون
[Fasting for] a limited number of days. So whoever among you is ill or on a journey [during them] - then an equal number of days [are to be made up]. And upon those who are able [to fast, but with hardship] - a ransom [as substitute] of feeding a poor person [each day]. And whoever volunteers excess - it is better for him. But to fast is best for you, if you only knew.
Ginti kay chand hi din hain lekin tum mein say jo shaks beemar ho ya safar mein ho to woh aur dinon mein ginti ko poora ker ley aur iss ki taqat rakhney walay fidiye mein aik miskeen ko khana den phir jo shaks neki mein sabqat keray woh ussi kay liye behtar hai lekin tumharay haq mein behtareen kaam rozay rakhna hi hai agar tum ba ilm ho.
گنتی کے چند دن روزے رکھنے ہیں ، پھر بھی اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے ۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا کر ( روزے کا ) فدیہ ادا کردیں ( ١١٥ ) اس کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے ، اور اگر تم کو سمجھ ہو تو روزے رکھنے میں تمہارے لیے زیادہ بہتری ہے
گنتی کے دن ہیں ( ف۳۲٦ ) تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو ( ف۳۲۷ ) تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا ( ف۳۲۸ ) پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے ( ف۳۲۹ ) تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو ( ف۳۳۰ )
چند مقرر دنوں کے روزے ہیں ۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو ، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے ۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں﴿پھر نہ رکھیں﴾ تو وہ فدیہ دیں ۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے 184 ، تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے ۔ لیکن اگر تم سمجھو ، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزہ رکھو ۔ 185
۔ ( یہ ) گنتی کے چند دن ( ہیں ) ، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں ( کے روزوں ) سے گنتی پوری کر لے ، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے ، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے ( زیادہ ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے ، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :184 یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانا کھلائے ، یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :185 یہاں تک وہ ابتدا ئی حکم ہے ، جو رمضان کے روزوں کے متعلق سن ۲ ہجری میں جنگ ِ بدر سے پہلے نازل ہوا تھا ۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبتِ مضمون کی وجہ سے اسی سلسلہء بیان میں شامل کر دی گئیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :186 “سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار ِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ ؓ سفر میں جایا کرتے تھے ، ان میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دُوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا ۔ خود آنحضرت ؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے ۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گر گیا اور اس کے گرد لوگ جمع ہو گئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے ۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے ۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو ۔ حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے ۔ پہلی مرتبہ جنگِ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکّہ کے موقی پر ، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے ۔ ابنِ عمر ؓ کا بیان ہے کہ فتحِ مکّہ کے موقع پر حضُور ؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فا فطر و ا ۔ دُوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قد د نو تم من عد و کم فا فطر و ا ا قوی لکم ۔ یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے ، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو ۔ عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، حضُور ؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ کرام ؓ کا عمل اس باب میں مختلف ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافر انہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے ، وہ افطار کے لیے کافی ہے ۔ یہ امر مُتَّفَق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو ، اس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اس کو اختیار ہے ۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے ، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے ۔ دونوں عمل صحابہ ؓ سے ثابت ہیں ۔ یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو ، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجُود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں ، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے ۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے ۔ مگر علّامہ ابن تیمیّہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے ۔