Surah

Information

Surah # 16 | Verses: 128 | Ruku: 16 | Sajdah: 1 | Chronological # 70 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except the last three verses from Madina
بِالۡبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ‌ؕ وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿44﴾
دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ ، یہ ذکر ( کتاب ) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں ، شاید کہ وہ غور و فکر کریں ۔
بالبينت و الزبر و انزلنا اليك الذكر لتبين للناس ما نزل اليهم و لعلهم يتفكرون
[We sent them] with clear proofs and written ordinances. And We revealed to you the message that you may make clear to the people what was sent down to them and that they might give thought.
Daleelon aur kitabon kay sath yeh zikar ( kitab ) hum ney aap ki taraf utara hai kay logon ki janib jo nazil farmaya gaya hai aap ussay khol khol ker biyan ker den shayad kay woh ghoro-o-fikar keren.
ان پیغمبروں کو روشن دلائل اور آسمانی کتابیں دے کر بھیجا گیا تھا ۔ اور ( اے پیغمبر ) ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کر دو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غوروفکر سے کام لیں ۔
روشن دلیلیں اور کتابیں لے کر ( ف۹۱ ) اور اے محبوب ہم نے تمہاری ہی طرف یہ یادگار اتاری ( ف۹۲ ) کہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ( ف۹۳ ) ان کی طرف اترا اور کہیں وہ دھیان کریں ،
پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ، اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے 40 ، اور تاکہ لوگ ﴿خود بھی﴾ غور و فکر کریں ۔
۔ ( انہیں بھی ) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ ( بھیجا تھا ) ، اور ( اے نبیِ مکرّم! ) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم ( قرآن ) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ ( پیغام اور احکام ) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :40 تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی ، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی ، اور ”ذکرِ الہٰی“ کے منشاء کے مطابق اس کے نظام کو چلا کر بھی ۔ اس طرح اللہ تعالی نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازما ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے ۔ ”ذکر“ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا ۔ براہ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچایا جا سکتا تھا ۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالی کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی ۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ”ذکر“ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے ۔ وہ اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے ۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے ۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے ، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے ۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں ان کے مقابلہ میں وہ اس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اس ”ذکر“ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے ۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے ۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے ، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام ”ذکر“ کے منشاء کی شرح ہو ۔ یہ آیت جس طرح ان منکرین نبوت کی حجت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ”ذکر“ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اسی طرح آج یہ ان منکرین حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ”ذکر“ کو لے لینا چاہتے ہیں ۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کر دیا تھا ، یا اس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ، یا اس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں ، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابلِ اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے ، غرض ان چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں ، ان کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے ۔ اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منشاء ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اسے واسطہ تبلیغ بنایا گیا تھا ۔ اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے ( معاذ اللہ ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا ذکر“ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا ۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا ۔ اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلک معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صرف ان لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں ۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالی خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو نا گزیر ٹھیرا رہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشاء کی توضیح کرے ۔ اب اگر منکرین حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں ۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونہ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ختم ہوگئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ان طرح کا رہ گیا جیسا ہود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کر تے ہیں ، ان پر ایمان لاتے ہیں ، مگر ان کا کوئی اسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کر دیتی ہے ، صرف ایک بے وقوف ہی اس کے بعد ختم نبوت پر اصرار کر سکتا ہے ۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے ، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں ، مدعی سست کی حمایت میں گواہان چست کی بات ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے ۔ قاتلہم اللہ ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکار حدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں ۔