Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
وَاِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّهۡلِكَ قَرۡيَةً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِيۡهَا فَفَسَقُوۡا فِيۡهَا فَحَقَّ عَلَيۡهَا الۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنٰهَا تَدۡمِيۡرًا‏ ﴿16﴾
اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو ( کچھ ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر ( عذاب کی ) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں ۔
و اذا اردنا ان نهلك قرية امرنا مترفيها ففسقوا فيها فحق عليها القول فدمرنها تدميرا
And when We intend to destroy a city, We command its affluent but they defiantly disobey therein; so the word comes into effect upon it, and We destroy it with [complete] destruction.
Aur jab hum kissi basti ki halakat ka irada ker letay hain to wahan kay khushaal logon ko ( kuch ) hukum detay hain aur woh uss basti mein khulli na-farmani kerney lagtay hain to unn per ( azab ) ki baat sabit hojati hai phir hum ussay tabah-o-barbad ker detay hain.
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو ( ایمان اور اطاعت کا ) حکم دیتے ہیں ، پھر وہ وہاں نافرمانیاں کرتے ہیں ، تو ان پر بات پوری ہوجاتی ہے ، چنانچہ ہم انہیں تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں ۔
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں اس کے خوشحالوں ( ف٤۵ ) پر احکام بھیجتے ہیں پھر وہ اس میں بےحکمی کرتے ہیں تو اس پر بات پوری ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ کرکے برباد کردیتے ہیں
جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں ، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔ 18
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم وہاں کے امراء اور خوشحال لوگوں کو ( کوئی ) حکم دیتے ہیں ( تاکہ ان کے ذریعہ عوام اور غرباء بھی درست ہو جائیں ) تو وہ اس ( بستی ) میں نافرمانی کرتے ہیں پس اس پر ہمارا فرمانِ ( عذاب ) واجب ہو جاتا ہے پھر ہم اس بستی کو بالکل ہی مسمار کر دیتے ہیں
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :18 اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے ۔ یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں ۔ ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے ۔ دراصل حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخرکار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے ، خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے ۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحب اقتدار لوگ فسق و فجور پر اتر آتے ہیں ، ظلم و ستم اور بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں ، اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے ۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاقی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں ۔