Surah

Information

Surah # 17 | Verses: 111 | Ruku: 12 | Sajdah: 1 | Chronological # 50 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 26, 32, 33, 57, 73-80, from Madina
اِنَّ رَبَّكَ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ وَيَقۡدِرُ‌ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيۡرًۢا بَصِيۡرًا‏ ﴿30﴾
یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے ۔
ان ربك يبسط الرزق لمن يشاء و يقدر انه كان بعباده خبيرا بصيرا
Indeed, your Lord extends provision for whom He wills and restricts [it]. Indeed He is ever, concerning His servants, Acquainted and Seeing.
Yaqeenan tera rab jiss kay liye chahaye rozi kushada ker deta hai aur jiss kay liye chahaye tang. Yaqeenan woh apney bandon say baa khabar aur khoob dekhney wala hai.
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں وسعت عطا فرما دیتا ہے ، اور ( جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگی پیدا کردیتا ہے ۔ یقین رکھو کہ وہ اپنے بندوں کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے ، انہیں پوری طرح دیکھ رہا ہے ۔
بیشک تمہارا رب جسے چاہے رزق کشادہ دیتا اور ( ف۷٤ ) کستا ہے ( تنگی دیتا ہے ) بیشک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا ( ف۷۵ ) دیکھتا ہے ،
تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے ۔ 30 ؏ ۳
بیشک آپ کا رب جس کے لئے چاہتاہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور ( جس کے لئے چاہتا ہے ) تنگ کر دیتا ہے ، بیشک وہ اپنے بندوں ( کے اعمال و احوال ) کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :30 یعنی اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کم و بیش کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا ، لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل انداز نہ ہونا چاہیے ۔ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا ، یا اس نا مساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا ، دونوں ہی یکساں غلط ہیں ۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے طریق تقسیم رزق سے قریب تر ہو ۔ اس فقرے میں قانون فطرت کے جس قاعدے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ نہ پا سکا کہ رزق اور وسائل رزق میں تفاوت اور تفاضل بجائے خود کوئی برائی ہے جسے مٹانا اور ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجے میں بھی مطلوب ہو ۔ اس کے برعکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر برقرار رکھا جائے اور اوپر کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین عمل کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بے شمار اخلاقی ، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالق کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے ۔