Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
فَانْطَلَقَا حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِى السَّفِيۡنَةِ خَرَقَهَا‌ ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَهَا لِتُغۡرِقَ اَهۡلَهَا‌ ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَيۡــًٔـا اِمۡرًا‏ ﴿71﴾
پھروہ دونوں چلے ، یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے اس کے تختے توڑ دیئے ، موسیٰ نے کہا کیا آپ اسے توڑ رہے ہیں تا کہ کشتی والوں کو ڈبو دیں ، یہ تو آپ نے بڑی ( خطرناک ) بات کر دی ۔
فانطلقا حتى اذا ركبا في السفينة خرقها قال اخرقتها لتغرق اهلها لقد جت شيا امرا
So they set out, until when they had embarked on the ship, al-Khidh r tore it open. [Moses] said, "Have you torn it open to drown its people? You have certainly done a grave thing."
Phir woh dono chalay yahan tak kay aik kashti mein sawar huye to uss ney kashti kay takhtay tor diye musa ney kaha kiya aap issay tor rahey hain takay kashti walon ko dobo den yeh to aap ney bari ( khatarnaak ) baat ker di.
چنانچہ دونوں روانہ ہوگئے ، یہاں تک کہ جب دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو ان صاحب نے کشتی میں چھید کردیا ۔ ( ٣٨ ) موسیٰ بولے : ارے کیا آپ نے اس میں چھید کردیا تاکہ سارے کشتی والوں کو ڈبو ڈالیں؟ یہ تو آپ نے بڑا خوفناک کام کیا ۔
اب دونوں چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے ( ۱۵۱ ) اس بندہ نے اسے چیر ڈالا ( ف۱۵۲ ) موسیٰ نے کہا کیا تم نے اسے اس لیے چیرا کہ اس کے سواروں کو ڈبا دو بیشک یہ تم نے بری بات کی ، ( ف۱۵۳ )
اب وہ دونوں روانہ ہوئے ، یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا ۔ موسیٰ ( علیہ السلام ) نے کہا آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تا کہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی ۔
پس دونوں چل دیئے یہاں تک کہ جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے ( تو خضر علیہ السلام نے ) اس ( کشتی ) میں شگاف کر دیا ، موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا: کیا آپ نے اسے اس لئے ( شگاف کر کے ) پھاڑ ڈالا ہے کہ آپ کشتی والوں کو غرق کردیں ، بیشک آپ نے بڑی عجیب بات کی
شرائط طے ہو گئیں دونوں میں جب شرط طے ہو گئی کہ تو سوال نہ کرنا جب تک میں خود ہی اس کی حکمت تجھ پر ظاہر نہ کروں تو دونوں ایک ساتھ چلے پہلے مفصل روایتیں گزر چکی ہیں کہ کشتی والوں نے انہیں پہچان کر بغیر کرایہ لئے سوار کر لیا تھا جب کشتی چلی اور بیچ سمندر میں پہنچی تو حضرت خضر نے ایک تختہ اکھیڑ ڈالا پھر اسے اوپر سے ہی جوڑ دیا یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ سے صبر نہ ہو سکا شرط کو بھول گئے اور جھٹ سے کہنے لگے کہ یہ کیا واہیات ہے ؟ لتغرق کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں ہے جیسے شاعر کے اس قول میں لدوا للموت وبنوا للحزاب یعنی ہر پیدا شدہ جان دار کا انجام موت ہے اور ہر بنائی ہوئی عمارت کا انجام اجڑنا ہے ۔ امرا کے معنی منکر اور عجیب کے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت خضر نے انہیں ان کا وعدہ یاد لایا کہ تم نے اپنی شرط کا خلاف کیا میں تو تم سے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تمہیں ان باتوں کا علم نہیں تم خاموش رہنا مجھ سے نہ کہنا نہ سوال کرنا ۔ ان کاموں کی مصلحت و حکمت الہٰی مجھے معلوم کراتا ہے اور تم سے یہ چیزیں مخفی ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کی کہ اس بھول کو معاف کرو اور مجھ پر سختی نہ کرو پہلے جو لمبی حدیث مفصل واقعہ کی بیان ہوئی ہے اس میں ہے کہ یہ پہلا سوال فی الواقع بھول چوک سے ہی تھا ۔