Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
قَالَ كَذٰلِكِ‌ ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ‌ ۚ وَلِنَجۡعَلَهٗۤ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحۡمَةً مِّنَّا‌ ۚ وَكَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِيًّا‏ ﴿21﴾
اس نے کہا بات تو یہی ہے لیکن تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ وہ مجھ پر بہت ہی آسان ہے ہم تو اسے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دیں گے اور اپنی خاص رحمت یہ تو ایک طے شدہ بات ہے ۔
قال كذلك قال ربك هو علي هين و لنجعله اية للناس و رحمة منا و كان امرا مقضيا
He said, "Thus [it will be]; your Lord says, 'It is easy for Me, and We will make him a sign to the people and a mercy from Us. And it is a matter [already] decreed.' "
Uss ney kaha baat to yehi hai lekin teray perwerdigar ka irshad hai kay woh mujh per boht hi aasan hai hum to ussay logon kay liye aik nishani bana den gay aur apni khaas rehmat yeh to aik tey shuda baat hai.
فرشتے نے کہا : ایسے ہی ہوجائے گا ۔ تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ : یہ میرے لیے ایک معمولی بات ہے ۔ اور ہم یہ کام اس لیے کریں گے تاکہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ( اپنی قدرت کی ) ایک نشانی بنائیں ۔ اور اپنی طرف سے رحمت کا مظاہرہ کریں ( ١١ ) اور یہ بات پوری طرح طے ہوچکی ہے ۔
کہا یونہی ہے ( ف۲۷ ) تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ ( ف۲۸ ) مجھے آسان ہے ، اور اس لیے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی ( ف۲۹ ) کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت ( ف۳۰ ) اور یہ کام ٹھہرچکا ہے ( ف۳۱ )
فرشتے نے کہا “ ایسا ہی ہوگا ، تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں 15 اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہنا ہے ۔ “
۔ ( جبرائیل علیہ السلام نے ) کہا: ( تعجب نہ کر ) ایسے ہی ہوگا ، تیرے رب نے فرمایا ہے: یہ ( کام ) مجھ پر آسان ہے ، اور ( یہ اس لئے ہوگا ) تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنادیں ، اور یہ امر ( پہلے سے ) طے شدہ ہے
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :15 جیسا کہ ہم حاشیہ نمبر 6 میں اشارہ کر آئے ہیں حضرت مریم کے استعجاب پر فرشتے کا یہ کہنا کہ ایسا ہی ہو گا ہرگز اس معنی میں نہیں ہو سکتا کہ بشر تجھ کو چھوئے گا اور اس سے تیرے ہاں لڑکا پیدا ہوگا ، بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تیرے ہاں لڑکا ہوگا باوجود اس کے کہ تجھے کسی بشر نے نہیں چھوا ہے ۔ اوپر انہی الفاظ میں حضرت زکریا کا استعجاب نقل ہو چکا ہے ۔ اور وہاں بھی فرشتے نے یہی جواب دیا ظاہر ہے کہ جو مطلب اس جواب کا وہاں ہے وہی یہاں بھی ہے ۔ اس طرح سورہ ، آیات ( 28 ۔ 30 ) میں جب فرشتہ حضرت ابراہیم کو بیٹے کی بشارت دیتا ہے اور حضرت سارہ کہتی ہیں کہ مجھ بوڑھی بانجھ کے ہاں بیٹا کیسے ہوگا تو فرشتہ ان کو جواب دیتا ہے کہ کذلک ایسا ہی ہوگا ظاہر ہے کہ اس سے مراد بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود ان کے ہاں اولاد ہونا ہے ۔ علاوہ بریں اگر کذلک کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ بشر تجھے چھوئے گا اور تیرے ہاں اس طرح لڑکا ہوگا جیسے دنیا بھر کی عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، تو پھر بعد کے دونوں فقرے بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ اس صورت میں یہ کہنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ تیرا رب کہتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیئے بہت آسان ہے ، اور یہ کہ ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں ۔ نشانی کا لفظ یہاں صریحاً معجزہ کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے ۔ اور اسی معنی پر یہ فقرہ بھی دلالت کرتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیئے بہت آسان ہے لہذا اس ارشاد کا مطلب بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ ہم اس لڑکے کی ذات ہی کو ایک معجزہ کی حیثیت سے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ بعد کی تفصیلات اس بات کی خود تشریح کر رہی ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات کو کس طرح معجزہ بنا کر پیش کیا گیا ۔