Phir dard-e-zeh ussay aik khajoor kay tanay kay neechay ley aaya boli kaash! Mein iss say pehlay hi marr gaee hoti aur logon ki yaad say bhi bhooli bisri hojati.
پھر زچگی کے درد نے انہیں ایک کھجور کے درخت کے پاس پہنچا دیا ۔ وہ کہنے لگیں : کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی ، اور مر کر بھولی بسری ہوجاتی ۔ ( ١٢ )
پھر دردِ زہ انہیں ایک کھجور کے تنے کی طرف لے آیا ، وہ ( پریشانی کے عالم میں ) کہنے لگیں: اے کاش! میں پہلے سے مرگئی ہوتی اور بالکل بھولی بسری ہوچکی ہوتی
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :17
ان الفاظ سے اس پریشان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں ۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردِزہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے ، بلکہ یہ فکر ان کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالی نے جس خطرناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں ۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا ۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں ۔ بعد کا یہ فقرہ فرشتے نے ان سے کہا غم نہ کر اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے ۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو چاہے تکلیف سے کتنی ہی تڑپے ، اسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا ۔