Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
اِنِّىۡۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخۡلَعۡ نَـعۡلَيۡكَ‌ۚ اِنَّكَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًىؕ‏ ﴿12﴾
یقیناً میں ہی تیرا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دے ، کیونکہ تو پاک میدان طویٰ میں ہے ۔
اني انا ربك فاخلع نعليك انك بالواد المقدس طوى
Indeed, I am your Lord, so remove your sandals. Indeed, you are in the sacred valley of Tuwa.
Yaqeenan mein hi tera perwerdigar hun to tu apni jootiyan utar dey kiyon kay tu pak maidan-e-toowa mein hai.
یقین سے جان لو کہ میں ہی تمہارا رب ہوں ۔ ( ٧ ) اب تم اپنے جوتے اتار دو ، تم اس وقت طوی کی مقدس وادی میں ہو ۔ ( ٨ )
بیشک میں تیرا رب ہوں تو تو اپنے جوتے اتار ڈال ( ف۹ ) بیشک تو پاک جنگل طویٰ میں ہے ( ف۱۰ )
اے موسی ( علیہ السلام ) ، میں ہی تیرا رب ہوں ، جوتیاں اتار دے ۔ 7 تو وادی مقدس طوی میں ہے ۔ 8
بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو ، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :7 غالباً اسی واقعہ کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا : خالفوا الیھود فانھم لا یصلّون فی فعالہم ولا خفافہم ، یہودیوں کے خلاف عمل کرو ۔ کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے ( ابو داؤد ) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور جوتے ہی پہن کر نماز پڑھنی چاہیے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے ، اس لیے دونوں طرح عمل کرو ۔ ابو داؤد میں عمْرو بن عاص کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔ مسند احمد اور ابو داؤد میں ابو سعید خُدرِی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جوتے کو پلٹ کر دیکھ لے ۔ اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کر لے اور انہی جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے ابوہریرہ کی روایت میں حضور کے یہ الفاظ ہیں اگر تم میں سے کسی نے اپنے جوتے سے گندگی کو پامال کیا ہو تو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اور حضرت ام سَلَمہ کی روایت میں ہے : یطھرہ مابعدہ ، یعنی ایک جگہ گندگی لگی ہوگی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمین ہی اس کو پاک کر دے گی ۔ ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام اوزاعی اور اسحاق بن راھَوَیہ وغیرہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جوتا ہر حال میں زمین کی مٹی سے پاک ہو جاتا ہے ۔ ایک ایک قول امام احمد اور امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے ۔ مگر امام شافعی کا مشہور قول اس کے خلاف ہے ۔ غالباً وہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کو ادب کے خلاف سمجھ کر منع کرتے ہیں ، اگرچہ سمجھا یہی گیا ہے کہ ان کے نزدیک جوتا مٹی پر رگڑنے سے پاک نہیں ہوتا ۔ ( اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسجد نبوی میں چٹائی تک کا فرش نہ تھا ، بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں ۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہو گا ۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو میدان میں نماز جنازہ پڑھتے وقت بھی جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں ، وہ در اصل احکام سے ناواقف ہیں ) ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :8 عام خیال یہ ہے کہ طویٰ اس وادی کا نام تھا ۔ مگر بعض مفسرین نے وادی مقدس طُویٰ کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ وہ وادی جو ایک ساعت کے لیے مقدس کر دی گئی ہے ۔