Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
لَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡهُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَهُنَّ فَرِيۡضَةً  ۖۚ وَّمَتِّعُوۡهُنَّ ‌ۚ عَلَى الۡمُوۡسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الۡمُقۡتِرِ قَدَرُهٗ ‌ۚ مَتَاعًا ۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌‌ۚ حَقًّا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿236﴾
اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں ، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو ۔ خوشحال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے ۔
لا جناح عليكم ان طلقتم النساء ما لم تمسوهن او تفرضوا لهن فريضة و متعوهن على الموسع قدره و على المقتر قدره متاعا بالمعروف حقا على المحسنين
There is no blame upon you if you divorce women you have not touched nor specified for them an obligation. But give them [a gift of] compensation - the wealthy according to his capability and the poor according to his capability - a provision according to what is acceptable, a duty upon the doers of good.
Agar tum aurton ko baghair haath lagaye aur baghair mehar muqarrar kiye tallaq dey do to bhi tum per koi gunah nahi haan unhen kuch na kuch faeeda do. Khushal apney andaz say aur tangdast apni taqat kay mutabiq dasatoor kay mutabiq acha faeeda dey. Bhalaee kerney walon per yeh lazim hai.
تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم عورتوں کو ایسے وقت طلاق دو جبکہ ابھی تم نے ان کو چھوا بھی نہ ہو ، اور نہ ان کے لیے کوئی مہر مقرر کیا ہو ، اور ( ایسی صورت میں ) ان کو کوئی تحفہ دو ( ١٥٨ ) ، خوشحال شخص اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی حیثیت کے مطابق بھلے طریقے سے یہ تحفہ دے ۔ یہ نیک آدمیوں پر ایک لازمی حق ہے ۔
تم پر کچھ مطالبہ نہیں ( ف٤۷۷ ) تم عورتوں کو طلاق دو جب تک تم نے ان کو ہاتھ نہ لگایا ہو یا کوئی مہر مقرر کرلیا ہو ( ف٤۷۸ ) اور ان کو کچھ برتنے کو دو ( ف٤۷۹ ) مقدور والے پر اس کے لائق اور تنگدست پر اس کے لائق حسب دستور کچھ برتنے کی چیز یہ واجب ہے بھلائی والوں پر ( ف٤۸۰ )
تم پر کچھ گناہ نہیں ، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو ۔ اس صورت میں انھیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے ۔ 260 خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے ۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر ۔
تم پر اس بات میں ( بھی ) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے ( اپنی منکوحہ ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں ( ایسی صورت میں ) مناسب خرچہ دے دو ، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق ( لازم ) ہے اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق ، ( بہر طور ) یہ خرچہ مناسب طریق پر دیا جائے ، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :260 اس طرح رشتہ جوڑنے کے بعد توڑ دینے سے بہرحال عورت کو کچھ نہ کچھ نقصان تو پہنچتا ہی ہے ، اس لیے اللہ نے حکم دیا ہے کہ حسب مقدرت اس کی تلافی کرو ۔
حق مہر کب اور کتنا: عقد نکاح کے بعد دخول سے بھی طلاق کا دینا مباح ہو رہا ہے ۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مراد مس سے نکاح ہے دخول سے پہلے طلاق دے دینا بلکہ مہر کا بھی ابھی تقرر نہیں ہوا اور طلاق دے دینا بھی جائز ہے ، گو اس میں عورت کے بیحد دِل شکنی ہے ، اسی لئے حکم ہے کہ اپنے مقدور بھر اس صورت میں مرد کو عورت کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس کا اعلیٰ حصہ خادم ہے اور اس سے کمی چاندی ہے اور اس سے کم کپڑا ہے یعنی اگر مالدار ہے تو غلام وغیرہ دے اور اگر مفلس ہے تو کم سے کم تین کپڑے دے ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں درمیانہ درجہ اس فائدہ پہنچانے کا یہ ہے کہ کرتہ دوپٹہ لحاف اور چادر دے دے ۔ تشریح فرماتے ہیں پانچ سو درہم دے ، ابن سیرین فرماتے ہیں غلام دے یا خوراک دے یا کپڑے لتے دے ، حضرت حسن بن علی نے دس ہزار دئیے تھے لیکن پھر بھی وہ بیوی صاحبہ فرماتی تھیں کہ اس محبوب مقبول کی جدائی کے مقابلہ میں یہ حقیر چیز کچھ بھی نہیں ۔ امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اگر دونوں اس فائدہ کی مقدار میں تنازعہ کریں تو اس کے خاندان کے مہر سے آدھی رقم دلوا دی جائے ، حضرت امام شافعی کا فرمان ہے کہ کسی چیز پر خاوند کو مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ کم سے کم جس چیز کو متعہ یعنی فائدہ اور اسباب کہا جا سکتا ہے وہ کافی ہوگا ۔ میرے نزدیک اتنا کپڑا متعہ ہے جتنے میں نماز پڑھ لینی جائز ہو جائے ، گو پہلا قول حضرت الامام کا یہ تھا کہ مجھے اس کا کوئی صحیح اندازہ معلوم نہیں لیکن میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ کم سے کم تیس درہم ہونے چاہئیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ، اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ اسباب دینا چاہئے یا صرف اسی صورت کو جس سے میل ملاپ نہ ہوا ہو ، بعض تو سب کیلئے کہتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ آیت ( وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭحَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:241 ) پس اس آیت کے عموم سے سب کیلئے وہ ثابت کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کی دلیل یہ بھی ہے آیت ( فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:28 ) یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے کہو کہ اگر تمہاری چاہت دنیا کی زندگی اور اسی کی زینت کی ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ اسباب بھی دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ چھوڑ دوں ، پس یہ تمام ازواج مطہرات وہ تھیں جن کا مہر بھی مقرر تھا اور جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی آ چکی تھیں ، سعید بن جبیر ، ابو العالیہ ، حسن بصری کا قول یہی ہے ۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے اور بعض تو کہتے ہیں کہ ان کا نیا اور صحیح قول یہی ہے واللہ اعلم ۔ بعض کہتے ہیں اسباب کا دینا اس طلاق والی کو ضروری ہے جس سے خلوت نہ ہوئی ہو گو مہر مقرر ہو چکا ہو کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:49 ) یعنی اے ایمان والو تم جب ایمان والی عورت سے نکاح کر لو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہاری طرف سے کوئی عدت نہیں جو عدت وہ گزاریں تم انہیں کچھ مال اسباب دے دو اور حسن کردار سے چھوڑ دو ، سعید بن مسیب کا قول ہے کہ سورۃ احزاب کی یہ آیت سورۃ بقرہ کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے ۔ حضرت سہل بن سعد اور ابو اسید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیہ بنت شرجبیل سے نکاح کیا جب وہ رخصت ہو کر آئیں اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے برا مانا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو اسید سے فرمایا اسے دو رنگین کپڑے دے کر رخصت کرو ، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف اسی صورت میں بطور فائدہ کے اسباب و متاع کا دینا ضروری ہے جبکہ عورت کی وداع نہ ہوئی ہو اور مہر بھی مقرر نہ ہوا ہو اور اگر دخول ہو گیا ہو تو مہر مثل یعنی خاندان کے دستور کے مطابق دینا پڑے گا اگر مقرر نہ ہوا ہو اور اگر مقرر ہو چکا ہو اور رخصت سے پہلے طلاق دے دے تو آدھا مہر دینا پڑے گا اور اگر رخصتی بھی ہو چکی ہے تو پورا مہر دینا پڑے گا اور یہی متعہ کا عوض ہوگا ۔ ہاں اس مصیبت زدہ عورت کیلئے متعہ ہے جس سے نہ ملاپ ہوا نہ مہر مقرر ہوا اور طلاق مل گئی ۔ حضرت ابن عمر اور مجاہد کا یہی قول ہے ، گو بعض علماء اسی کو مستحب بتلاتے ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہئے ان کے سوا جو مہر مقرر کئے ہوئے نہ ہوں اور نہ خاوند بیوی کا میل ہوا ہو ، یہی مطلب سورۃ احزاب کی اس آیت تخیر کا ہے جو اس سے پہلے اسی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے اور اسی لئے یہاں اس خاص صورت کیلئے فرمایا گیا ہے کہ امیر اپنی وسعت کے مطابق دیں اور غریب اپنی طاقت کے مطابق ۔ حضرت شعبی سے سوال ہوتا ہے کہ یہ اسباب نہ دینے والا کیا گرفتار کیا جائے گا ؟ تو آپ فرماتے ہیں اپنی طاقت کے برابر دے دے ، اللہ کی قسم اس بارے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اگر یہ واجب ہوتا تو قاضی لوگ ضرور ایسے شخص کو قید کر لیتے ۔