Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَهُمۡ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الۡمَوۡتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوۡتُوۡا ثُمَّ اَحۡيَاھُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰـكِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا يَشۡکُرُوۡنَ‏ ﴿243﴾
کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے ، اللہ تعالٰی نے انہیں فرمایا مر جاؤ ، پھر انہیں زندہ کر دیا بیشک اللہ تعالٰی لوگوں پر بڑا فضل والا ہے ، لیکن اکثر لوگ ناشُکرے ہیں ۔
الم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس و لكن اكثر الناس لا يشكرون
Have you not considered those who left their homes in many thousands, fearing death? Allah said to them, "Die"; then He restored them to life. And Allah is full of bounty to the people, but most of the people do not show gratitude.
Kiya tum ney unhen nahi dekha jo hazaron ki tadaad mein thay aur maut kay darr kay maaray apney gharon say nikal kharay huye thay Allah Taalaa ney unhen farmaya marr jao phir unhen zinda ker diya be-shak Allah Taalaa logon per bara fazal wala hai lekin aksar log na shukray hain.
کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا جو موت سے بچنے کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے ، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے ؟ چنانچہ اللہ نے ان سے کہا : مر جاؤ ، پھر انہیں زندہ کیا ۔ ( ١٦٣ ) حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے ، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے ۔
اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے ، تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیا ، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں ( ف٤۹۰ )
265 تم نے ان لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا ، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ ۔ پھر اس نے ان کو دوبارہ زندگی بخشی ۔ 266 حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ( اے حبیب! ) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گئے حالانکہ وہ ہزاروں ( کی تعداد میں ) تھے ، تو اﷲ نے انہیں حکم دیا: مر جاؤ ( سو وہ مرگئے ) ، پھر انہیں زندہ فرما دیا ، بیشک اﷲ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ ( اس کا ) شکر ادا نہیں کرتے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :265 یہاں سے ایک دوسرا سلسلہ تقریر شروع ہوتا ہے ، جس میں مسلمانوں کو راہ خدا میں جہاد اور مالی قربانیاں کرنے پر ابھارا گیا ہے اور انہیں ان کمزوریوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، جن کی وجہ سے آخر کار بنی اسرائیل زوال و انحطاط سے دوچار ہوئے ۔ اس مقام کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان اس وقت مکے سے نکالے جا چکے تھے ، سال ڈیڑھ سال سے مدینے میں پناہ گزیں تھے ، اور کفار کے مظالم سے تنگ آکر خود بار بار مطالبہ کر چکے تھے کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے ۔ مگر جب انہیں لڑائی کا حکم دے دیا گیا ، تو اب ان میں بعض لوگ کسمسا رہے تھے ، جیسا کہ چھبیسویں رکوع کے آخر میں ارشاد ہوا ہے ۔ اس لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے دو اہم واقعات سے انہیں عبرت دلائی گئی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :266 یہ اشارہ بنی اسرائیل کے واقعہ خروج کی طرف ہے ۔ سورہ مائدہ کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے ۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے ۔ دشت و بیاباں میں بے خانماں پھر رہے تھے ۔ خود ایک ٹھکانے کے لیے بے تاب تھے ۔ مگر جب اللہ کے ایما سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو حکم دیا کہ ظالم کنعانیوں کو ارض فلسطین سے نکال دو اور اس علاقے کو فتح کر لو ، تو انہوں نے بزدلی دکھائی اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا ۔ آخر کار اللہ نے انہیں چالیس سال تک زمین میں سرگرداں پھرنے کے لیے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ان کی ایک نسل ختم ہو گئی اور دوسری نسل صحراؤں کی گود میں پل کر اٹھی ۔ تب اللہ تعالیٰ نے انہیں کنعانیوں پر غلبہ عطا کیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی معاملے کو موت اور دوبارہ زندگی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔
موت اور زندگی: ابن عباس فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے ، بعض تو ہزار کہتے ہیں ، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں ، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں ، یہ لوگ ذرو روان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے ، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا ، یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے ، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مر گئے ، اتفاق سے ایک نبی اللہ کا وہاں سے گزرا ، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کر دیا ، بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہو گیا ، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم سب جمع ہو جاؤ ، چنانچہ ہر ہر جسم کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھڑا ہو گیا پھر اللہ کا حکم ہوا ندا کرو کہ اے ہڈیو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو ، چنانچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہو گیا ، پھر آواز آئی کہ اے روحو اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آ جائے چنانچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے اور بےساختہ انکی زبان سے نکلا ( سبحانک لا الہ الا انت ) اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اُٹھنے کی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بےشکرے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہو گئے ، مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف چلے اور سرنح میں پہنچے تو ابو عبیدہ بن جراح وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چنانچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں ، بالآخر عبدالرحمن بن عوف جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اس کے ڈر سے مت بھاگو ، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ ۔ حضرت عمر فاروق نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے ( بخاری مسلم ) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی امتوں پر ڈالا گیا تھا ۔