Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَلَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ‌ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَيۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا‌ ۘ‌ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا‌ ؕ فَمَنۡ جَآءَهٗ مَوۡعِظَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ فَانۡتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ وَاَمۡرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ‌ؕ وَمَنۡ عَادَ فَاُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿275﴾
سود خور لوگ نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے ، یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالٰی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام ، جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالٰی کی نصیحت سُن کر رُک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالٰی کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ ( حرام کی طرف ) لوٹا وہ جہنمی ہے ، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے ۔
الذين ياكلون الربوا لا يقومون الا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطن من المس ذلك بانهم قالوا انما البيع مثل الربوا و احل الله البيع و حرم الربوا فمن جاءه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف و امره الى الله و من عاد فاولىك اصحب النار هم فيها خلدون
Those who consume interest cannot stand [on the Day of Resurrection] except as one stands who is being beaten by Satan into insanity. That is because they say, "Trade is [just] like interest." But Allah has permitted trade and has forbidden interest. So whoever has received an admonition from his Lord and desists may have what is past, and his affair rests with Allah . But whoever returns to [dealing in interest or usury] - those are the companions of the Fire; they will abide eternally therein.
Sood khor log na kharay hongay magar ussi tarah jiss tarah woh khara hota hai jissay shetan chu ker khabti bana dey yeh iss liye kay yeh kaha kertay thay kay tijarat bhi to sood hi ki tarah hai halankay Allah Taalaa ney tijarat ko halal kiya aur sood ko haram jo shaks apney pass aaee hui Allah Taalaa ki naseehat sunn ker ruk gaya uss kay liye woh hai jo guzra aur uss ka moamla Allah Taalaa ki taraf hai aur jo phir doobara ( haram ki taraf ) lota woh jahannumi hai aisay log hamesha hi uss mein rahen gay.
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ ( قیامت میں ) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنا دیا ہو ، یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ : بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے ۔ ( ١٨٤ ) حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔ لہذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ ( سودی معاملات سے ) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے ۔ ( ١٨٥ ) اور اس ( کی باطنی کیفیت ) کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا ( ١٨٦ ) تو ایسے لوگ دوزخی ہیں ، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔
وہ جو سود کھاتے ہیں ( ف۵۸٤ ) قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر ، جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیا ہو ( ف۵۸۵ ) اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کے مانند ہے ، اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود ، تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا ، ( ف۵۸٦ ) اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے ( ف۵۸۷ ) اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے ( ف۵۸۸ )
مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں 315 ، ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے ، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو ۔ 316 اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی ہے 317 ، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔ 318 لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آجائے ، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، سو وہ کھا چکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ 319 اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے ، وہ جہنمی ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا ۔
جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ ( روزِ قیامت ) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان ( آسیب ) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو ، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت ( خرید و فروخت ) بھی تو سود کی مانند ہے ، حالانکہ اﷲ نے تجارت ( سوداگری ) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے ، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ ( سود سے ) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے ، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے ، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :315 اصل میں لفظ”رِبٰوا“استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں ۔ اصطلاحاً اہل عرب اس لفظ کو اس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وصول کرتا ہے ۔ اسی کو ہماری زبان میں سود کہتے ہیں ۔ نزول قرآن کے وقت سودی معاملات کی اور شکلیں رائج تھیں اور جنہیں اہل عرب ”رِبٰوا“ کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدت مقرر کر دیتا ۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی ، تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا ۔ یا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سے طے کر لیتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہو گی ۔ یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدت کے لیے ایک شرح طے ہو جاتی تھی اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی ، تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی ۔ اسی نوعیت کے معاملات کا حکم یہاں بیان کیا جا رہا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :316 اہل عرب دیوانے آدمی کو”مجنون“ ( یعنی آسیب زدہ ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے ، اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے ، تو یوں کہتے کے اسے جن لگ گیا ہے ۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سود خوار کو اس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبوط الحواس ہو گیا ہو ۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے ، اسی طرح سود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنون میں کچھ پروا نہیں کر تا کہ اس کی سود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت ، اخوت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں ، اجتماعی فلاح و بہبود پر کس قدر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے ، اور کتنے لوگوں کی بدحالی سے وہ اپنی خوشحالی کا سامان کر رہا ہے ۔ یہ اس کی دیوانگی کا حال اس دنیا میں ہے ۔ اور چونکہ آخرت میں انسان اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس حالت پر اس نے دنیا میں جان دی ہے ، اس لیے سود خوار آدمی قیامت کے روز ایک باؤلے ، مخبوط الحواس انسان کی صورت میں اٹھے گا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :317 ”یعنی ان کے نظریے کی خرابی یہ ہے کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو منافع لیا جاتا ہے ، اس کی نوعیت اور سود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے ، اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے ، تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہو ۔ اسی طرح کے دلائل موجودہ زمانے کو سود خوار بھی سود کے حق میں پیش کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس روپے سے خود فائدہ اٹھا سکتا تھا ، اسے وہ قرض پر دوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے ۔ وہ دوسرا شخص بھی بہرحال اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قرض دینے والے کے روپے سے جو فائدہ اٹھا رہا ہے ، اس میں سے ایک حصہ وہ قرض دینے والے کو نہ ادا کرے؟ مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دنیا میں جتنے کاروبار ہیں ، خواہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرف کے یا زراعت کے ، اور خواہ انہیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایے اور محنت ہر دو سے ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جس میں آدمی نقصان کا خطرہ ( Risk ) مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک مقرر منافع کی ضمانت ہو ۔ پھر آخر پوری کاروباری دنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی کیوں ہو جو نقصان کے خطرے سے بچ کر ایک مقرر اور لازمی منافع کا حق دار قرار پائے؟ غیر نفع بخش اغراض کے لیے قرض لینے والے کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے ، اور شرح کی کمی بیشی کے مسئلے سے بھی قطع نظر کر لیجیے ۔ معاملہ اسی قرض کا سہی جو نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے لیا جائے ، اور شرح بھی تھوڑی ہی سہی ۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت ، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں ، اور جن کی سعی اور کوشش کے بل پر ہی اس کاروبار کا بار آور ہونا موقوف ہے ، ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو ، بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل انہی کے سر ہو ، مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انہیں قرض دے دیا ہو وہ بے خطر ایک طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جائے! یہ آخر کس عقل ، کس منطق ، کس اصول انصاف اور کس اصول معاشیات کی رو سے درست ہے؟ اور یہ کس بنا پر صحیح ہے کہ ایک شخص ایک کارخانے کو بیس سال کے لیے ایک رقم قرض دے اور آج ہی یہ طے کر لے کہ آئندہ ۲۰ سال تک وہ برابر ۵ فیصدی سالانہ کے حساب سے اپنا منافع لینے کا حق دار ہو گا ، حالانکہ وہ کارخانہ جو مال تیار کرتا ہے اس کے متعلق کسی کو بھی نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کے اندر آئندہ بیس سال میں کتنا اتار چڑھاؤ ہو گا ؟ اور یہ کس طرح درست ہے کہ ایک قوم کے سارے ہی طبقے ایک لڑائی میں خطرات اور نقصانات اور قربانیاں برداشت کریں ، مگر ساری قوم کے اند رسے صرف ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا ہو جو اپنے دیے ہوئے جنگی قرض پر اپنی ہی قوم سے لڑائی کے ایک ایک صدی بعد تک سود وصول کرتا رہے؟ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :318 تجارت اور سود کا اصولی فرق ، جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی ، یہ ہے׃ ( ١ ) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اٹھاتا ہے جو اس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اس محنت ، ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے ، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے ۔ بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ، جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ، جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں ۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے ۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے ۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے ، یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر ۔ ( ۲ ) تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے ، بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے ، ایک ہی بار لیتا ہے ۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو ، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہو گا ۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے ، اس کے لیے کوئی حد نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی ، اس کے تمام وسائل معیشت ، حتّٰی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کر لے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے ۔ ( ۳ ) تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی ۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے ، جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے ، صرف نہیں ہوتی ، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ مالک جائداد کو واپس دے دی جاتی ہے ۔ لیکن سود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے ۔ ( ٤ ) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت ، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے ۔ مگر سودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دوسروں کی کمائی میں شریک غالب بن جاتا ہے ۔ اس کی حیثیت اصطلاحی ” شریک“ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے ، اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے ، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظ تناسب نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے ۔ ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہو جاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے ۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ، خود غرضی ، شقاوت ، بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے ، اور ہمدردی و امداد باہمی کی روح کو فنا کر دیتا ہے ۔ اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :319 یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا ، اسے اللہ معاف کر دے گا ، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جو کھا چکا سو کھا چکا“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا ، اسے معاف کر دیا گیا ، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے ۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے ، اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو ۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سودی کاروبار سے سمیٹا ہو ۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطہ نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا ، تو وہ خود اپنی اس دولت کو ، جو حرام ذرائع سے آئی تھی ، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ، جن کا مال اس کے پاس ہے ، اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کر دیا جائے ۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا ۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لطف اٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے ۔
تجارت اور سود کو ہم معنی کہنے والے کج بحث لوگ چونکہ پہلے ان لوگوں کا ذِکر ہوا ہے جو نیک کا ( صدقہ خیرات کرنے والے زکوتیں دینے والے حاجت مندوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنے والے غرض ہر حال میں اور ہر وقت دوسروں کے کام آنے والے تھے تو ان کا بیان ہو رہا ہے جو کسی کو دینا تو ایک طرف رہا دوسروں سے چھیننے ظلم کرنے اور ناحق اپنے پرایوں کا مال ہضم کرنے والے ہیں ، تو فرمایا کہ یہ سودخور لوگ اپنی قبروں سے ان کے بارے میں دیوانوں اور پاگلوں خبطیوں اور بیہوشوں کی طرح اُٹھیں گے ، پاگل ہوں گے ، کھڑے بھی نہ ہو سکتے ہوں گے ، ایک قرأت میں من المس کے بعد یوم القیامۃ کا لفظ بھی ہے ، ان سے کہا جائے گا کہ لو اب ہتھیار تھام لو اور اپنے رب سے لڑنے کیلئے آمادہ ہو جاؤ ، شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں کی مانند تھے ، پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا سود اور بیاج لینے والے ہیں ، اور روایت میں ہے کہ ان کے پیٹوں میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو ڈستے رہتے تھے اور ایک مطول حدیث میں ہے کہ ہم جب ایک سرخ رنگ نہر پر پہنچے جس کا پانی مثل خون کے سرخ تھا تو میں نے دیکھا اسں میں کچھ لوگ بمشکل تمام کنارے پر آتے ہیں تو ایک فرشتہ بہت سے پتھر لئے بیٹھا ہے ، وہ ان کا منہ پھاڑ کر ایک پتھر ان کے منہ میں اتار دیتا ہے ، وہ پھر بھاگتے ہیں پھر یہی ہوتا ہے ، پوچھا تو معلوم ہوا یہ سو خوروں کا گروہ ہے ، ان پر یہ وبال اس باعث ہے کہ یہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی ہے ان کا یہ اعتراض شریعت اور احکام الٰہی پر تھا وہ سود کو تجارت کی طرح حلال جانتے تھے ، جبکہ بیع پر سود کا قیاس کرنا ہی غلط ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکین تو تجارت کا شرعاً جائز ہونے کے قائل نہیں ورنہ یوں کہتے کہ سود مثل بیع ہے ، ان کا کہنا یہ تھا کہ تجارت اور سود دونوں ایک جیسی چیزیں ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کو حلال کہا جائے اور دوسری کو حرام؟ پھر انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حلت و حرمت اللہ کے حکم کی بنا پر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ بھی کافروں کا قول ہی ہو ، تو بھی انتہائی اچھے انداز سے جواباً کہا گیا اس میں مصلحت الہیہ کہ ایک کو اللہ نے حرام ٹھہرایا اور دوسرے کو حلال پھر اعتراض کیسا ؟ علیم و حکیم اللہ کے حکموں پر اعتراض کرنے والے تم کون؟ کس کی ہستی ہے؟ اس سے بازپرس کرنے کی ، تمام کاموں کی حقیقت کو ماننے والا تو وہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ میرے بندوں کا حقیقی نفع کس چیز میں اور فی الواقع نقصان کس چیز میں ہے ، تو نفع الی چیزیں حلال کرتا ہے اور نقصان پہنچانے والی چیزیں حرام کرتا ہے ، کوئی ماں اپنے دودھ پیتے بچے پر اتنی مہربان نہ ہوگی جتنا اللہ اپنے بندوں پر ہے ، وہ روکتا ہے تو بھی مصلحت سے اور حکم دیتا ہے تو مصلحت سے ، اپنے رب کی نصیحت سن کر جو باز آجائے اس کے پہلے کئے ہوئے تمام گناہ معاف ہیں ، جیسا فرمایا عفا اللہ عما سلف اور جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا تھا جاہلیت کے تمام سود آج میرے ان قدموں تلے دفن کر دئیے گئے ہیں ، چنانچہ سب سے پہلا سود جس سے میں دست بردار ہوتا ہوں وہ عباس کا سود ہے ، پس جاہلیت میں جو سود لے چکے تھے ان کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا ، ایک روایت میں ہے کہ ام بحنہ حضرت زید بن ارقم کی ام ولد تھیں ، حضرت عائشہ کے پاس آئیں اور کہا کہ میں نے ایک غلام حضرت زید کے ہاتھوں آٹھ سو کا اس شرط پر بیچا کہ جب ان کے پاس رقم آئے تو وہ ادا کر دیں ، اس کے بعد انہیں نقدی کی ضرورت پڑی تو وقت سے پہلے ہی وہ اسے فروخت کرنے کو تیار ہوگئے ، میں نے چھ سو کا خرید لیا ، حضرت صدیقہ نے فرمایا تو نے بھی اور اس نے بھی بالکل خلاف شرع کیا ، بہت برا کیا ، جاؤ زید سے کہہ دو اگر وہ توبہ نہ کرے گا تو اس کا جہاد بھی غارت جائے گا جو اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہے ، میں نے کہا اگر وہ دو سو جو مجھے اس سے لینے ہیں چھوڑ دوں اور صرف چھ سو وصول کرلوں تاکہ مجھے میری پوری رقم آٹھ سو کی مل جائے ، آپ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ، پھر آپ نے ( فمن جاء موعظۃ والی آیت پڑھ کر سنائی ( ابن ابی حاتم ) یہ اثر بھی مشہور ہے اور ان لوگوں کی دلیل ہے جو عینہ کے مسئلے کو حرام بتاتے ہیں اس کی تفصیل کتاب الاحکام میں ہے اور احادیث بھی ہیں ، والحمداللہ ۔ پھر فرمایا کہ حرمت کا مسئلہ کانوں میں پڑنے کے بعد بھی سود لے تو وہ سزا کا مستحق ہے ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا جو مخابرہ کو اب بھی نہ چھوڑے وہ اللہ کے رسول سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائے ( ابو داؤد ) مخابرہ اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص دوسروں کی زمین میں کھیتی بوئے اور اس سے یہ طے ہو کہ زمین کے اس محدود ٹکڑے سے جتنا اناج نکلے وہ میرا باقی تیرا اور مزابنہ اسے کہتے ہیں کہ درخت میں جو کھجوریں ہیں وہ میری ہیں اور میں اس کے بدلے اپنے پاس سے تجھے اتنی اتنی کھجوریں تیار دیتا ہوں ، اور محاقلہ اسے کہتے ہیں کہ کھیت میں جو اناج خوشوں میں ہے اسے اپنے پاس سے کچھ اناج دے کر خریدنا ، ان تمام صورتوں کو شریعت نے حرام قرار دیا تاکہ سود کی جڑیں کٹ جائیں ، اس لئے کہ ان صورتوں میں صحیح طور پر کیفیت تبادلہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا ، پس بعض علماء نے اس کی کچھ علت نکالی ، بعض نے کچھ ، ایک جماعت نے اسی قیاس پر ایسے تمام کاروبار کو منع کیا ، دوسری جماعت نے برعکس کیا ، لیکن دوسری علت کی بنا پر ، حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ذرا مشکل ہے ۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فرماتے ہیں افسوس کہ تین مسئلے پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئے دادا کی میراث کا کلالہ اور سود کی صورتوں کا یعنی بعض کاروبار کی ایسی صورتیں جن پر سود کا شبہ ہوتا ہے ، اور وہ ذرائع جو سود کی مماثلت تک لے جاتے ہوں جب یہ حرام ہیں تو وہ بھی حرام ہی ٹھہریں گے ، جیسا کہ وہ چیز واجب ہو جاتی ہے جس کے بغیر کوئی واجب پورا نہ ہوتا ہو ، بخاوی و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جس طرح حلال ظاہر ہے ، اسی طرح حرام بھی ظاہر ہے لیکن کچھ کام درمیانی شبہ والے بھی ہیں ، ان شبہات والے کاموں سے بچنے والے نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو ان مشتبہ چیزوں میں پڑا وہ حرام میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے ۔ اس چرواہے کی طرح جو کسی کی چراگاہ کے آس پاس اپنے جانور چراتا ہو ، تو ممکن ہے کوئی جانور اس چراگاہ میں بھی منہ مار لے ، سنن میں حدیث ہے کہ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور اسے لے لو جو شک شبہ سے پاک ہے ، دوسری حدیث میں ہے گناہ وہ ہے جو دِل میں کھٹکے طبیعت میں تردد ہو اور اس کے بارے میں لوگوں کا واقف ہونا اسے برا لگتا ہو ، ایک اور روایت میں ہے اپنے دِل سے فتویٰ پوچھ لو لوگ چاہے کچھ بھی فتویٰ دیتے ہوں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سود کی حرمت سب سے آخر میں نازل ہوئی ( بخاری ) حضرت عمر یہ فرما کر کہتے ہیں افسوس کہ اس کی پوری تفسیر بھی مجھ تک نہ پہنچ سکی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ۔ لوگو سود کو بھی چھوڑو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا بھی شائبہ ہو ( مسند احمد ) حضرت عمر نے ایک خطبہ میں فرمایا شاید میں تمہیں بعض ان چیزوں سے روک دوں جو تمہارے لئے نفع والی ہوں اور ممکن ہے میں تمہیں کچھ ایسے احکام بھی دوں جو تمہاری مصلحت کیخلاف ہوں ، سنو! قرآن میں سب سے آخر سود کی حرمت کی آیت اتری ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا اور افسوس کہ اسے کھول کر ہمارے سامنے بیان نہ فرمایا پس تم ہر اس چیز کو چھوڑو جو تمہیں شک میں ڈالتی ہو ( ابن ماجہ ) ایک حدیث میں ہے کہ سود کے تہتر گناہ ہیں جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے بدکاری کرے ، سب سے بڑا سود مسلمان کی ہتک عزت کرنا ہے ( مستدرک حاکم ) فرماتے ہیں ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ سود کھائیں گے ، صحابہ نے پوچھا کیا سب کے سب؟ فرمایا جو نہ کھائے گا اسے بھی غبار تو پہنچے گا ہی ، ( مسند احمد ) پس غبار سے بچنے کیلئے ان اسباب کے پاس بھی نہ پھٹکنا چاہئے جو ان حرام کاموں کی طرف پہنچانے والے ہوں ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب سورۃ بقرہ کی آخری آیت حرمت سود میں نازل ہوئی تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آکر اس کی تلاوت کی اور سودی کاروبار اور سودی تجارت کو حرام قرار دیا ، بعض ائمہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح شراب اور اس طرح کی تمام خرید و فروخت وغیرہ وہ وسائل ( ذرائع ) ہیں جو اس تک پہنچانے والے ہیں سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کئے ہیں ، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت اس لئے کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے حیلہ سازی کرکے حلال بنانے کی کوشش کی چنانچہ یہ کوشش کرنا بھی حرام ہے اور موجب لعنت ہے ، اسی طرح پہلے وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص دوسرے کی تین طلاق والی عورت سے اس لئے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے اس پر اور اس خاوند پر اللہ کی پھٹکار اور اس کی لعنت ہے ، آیت حتی تنکح زوجا غیرہ کی تفسیر میں دیکھ لیجئے ، حدیث شریف میں ہے سود کھانے والے پر کھلانے والے پر شہادت دینے والوں پر گواہ بننے والوں پر لکھنے والے پر سب اللہ کی لعنت ہے ، ظاہر ہے کاتب و شاہد کو کیا ضرورت پڑی ہے جو وہ خواہ مخواہ اللہ کی لعنت اپنے اوپر لے ، اسی طرح بظاہر عقد شرعی کی صورت کا اظہار اور نیت میں فساد رکھنے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہے ۔ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں بلکہ تمہارے دِلوں اور نیتوں کو دیکھتے ہیں ۔ حضرت علامہ امام ابن تیمیہ نے ان حیلوں حوالوں کے رَد میں ایک مستقل کتاب ابطال التحلیل لکھی ہے جو اس موضوع میں بہترین کتاب ہے اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان سے خوش ہو ۔