Surah

Information

Surah # 24 | Verses: 64 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 102 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَيۡنَكُمۡ كَدُعَآءِ بَعۡضِكُمۡ بَعۡضًا‌ ؕ قَدۡ يَعۡلَمُ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ يَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡكُمۡ لِوَاذًا‌ ۚ فَلۡيَحۡذَرِ الَّذِيۡنَ يُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِهٖۤ اَنۡ تُصِيۡبَهُمۡ فِتۡنَةٌ اَوۡ يُصِيۡبَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿63﴾
تم اللہ تعالٰی کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کر لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے ۔
لا تجعلوا دعاء الرسول بينكم كدعاء بعضكم بعضا قد يعلم الله الذين يتسللون منكم لواذا فليحذر الذين يخالفون عن امره ان تصيبهم فتنة او يصيبهم عذاب اليم
Do not make [your] calling of the Messenger among yourselves as the call of one of you to another. Already Allah knows those of you who slip away, concealed by others. So let those beware who dissent from the Prophet's order, lest fitnah strike them or a painful punishment.
Tum Allah Taalaa kay nabi kay bulney ko aisa bulawa na kerlo jaisa kay aapas mein aik doosray ko hota hai. Tum mein say unhen Allah khoob janta hai jo nazar bacha ker chupkay say sirak jatay hain suno jo log hukum-e-rasool ki mukhlifat kertay hain unhen dartay rehna chahaye kay kahin unn per koi zabardast aafat na aa paray ya unhen dard-naak azab na phonchay.
۔ ( اے لوگو ) اپنے درمیان رسول کو بلانے کو ایسا ( معمولی ) نہ سمجھو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہو ( ٤٨ ) اللہ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں ۔ لہذا جو لوگ اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آپڑے ، یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ آپکڑے ۔
رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ( ف۱۵٤ ) بیشک اللہ جانتا ہے جو تم میں چپکے نکل جاتے ہیں کسی چیز کی آڑ لے کر ( ف۱۵۵ ) تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ پہنچے ( ف۱۵٦ ) یا ان پر دردناک عذاب پڑے ( ف۱۵۷ )
مسلمانو ، اپنے درمیان رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو ۔ 102 اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے سَٹک جاتے ہیں ۔ 103 رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں 104 یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے ۔
۔ ( اے مسلمانو! ) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو ( جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے ) ، بیشک اللہ ایسے لوگوں کو ( خوب ) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں ( دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ) چپکے سے کھسک جاتے ہیں ، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے امرِ ( ادب ) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ ( دنیا میں ہی ) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا ( آخرت میں ) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا
سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :102 اصل میں لفظ دُعَآء استعمال ہوا ہے جس کے معنی بلانے کے بھی ہیں اور دعا کرنے اور پکارنے کے بھی ۔ نیز دُعَآءَ الرَّسُوْلِ کے معنی رسول کا بلانا یا دعاء کرنا بھی ہو سکتا ہے اور رسول کو پکارنا بھی ۔ ان مختلف معنوں کے لحاظ سے آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اور تینوں ہی صحیح و معقول ہیں : اول یہ کہ رسول کے بلانے کو عام آدمیوں میں سے کسی کے بلانے کی طرح نہ سمجھو یعنی رسول کا بلاوا غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ دوسرا کوئی بلائے اور تم لبیک نہ کہو تو تمہیں آزادی ہے ، لیکن رسول بلائے اور تم نہ جاؤ ، یا دل میں ذرہ برابر بھی تنگی محسوس کرو تو ایمان کا خطرہ ہے ۔ دوم یہ کہ رسول کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو وہ تم سے خوش ہو کر دعا دیں تو تمہارے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ، اور ناراض ہو کر بد دعا دے دیں تو تمہاری اس سے بڑھ کر کوئی بد نصیبی نہیں ۔ سوم یہ کہ رسول کا پکارنا عام آدمیوں کے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہ ہونا چاہیے ۔ یعنی تم عام آدمیوں کو جس طرح ان کے نام لے کر بآواز بلند پکارتے ہو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پکارا کرو ۔ اس معاملے میں ان کا انتہائی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے ، کیونکہ ذرا سی بے ادبی بھی اللہ کے ہاں مواخذے سے نہ بچ سکے گی ۔ یہ تینوں مطلب اگرچہ معنی کے لحاظ سے صحیح ہیں اور قرآن کے الفاظ تینوں کو شامل ہیں ، لیکن بعد کے مضمون سے پہلا مطلب ہی مناسبت رکھتا ہے ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :103 یہ منافقین کی ایک اور علامت بتائی گئی ہے کہ اسلام کی اجتماعی خدمات کے لیے جب بلایا جاتا ہے تو وہ آ تو جاتے ہیں ، کیونکہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل رہنا چاہتے ہیں ، لیکن یہ حاضری ان کو سخت نا گوار ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح چھپ چھپا کر نکل بھاگتے ہیں ۔ سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :104 امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فتنے کا مطلب ظالموں کا تسلط لیا ہے ۔ یعنی اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو ان پر جابر و ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے ۔ بہرحال فتنے کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے اور اس کے سوا دوسری بے شمار صورتیں بھی ممکن ہیں ۔ مثلاً آپس کے تفرقے اور خانہ جنگیاں ، اخلاقی زوال ، نظام جماعت کی پراگندگی ، داخلی انتشار ، سیاسی اور مادی طاقت کا ٹوٹ جانا ، غیروں کا محکوم ہو جانا وغیرہ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے کے آداب لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بلاتے تو آپ کے نام یا کنیت سے معمولی طور پر جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں آپ کو بھی پکار لیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی سے منع فرمایا کہ نام نہ لو بلکہ یا نبی اللہ یارسول اللہ کہہ کر پکارو ۔ تاکہ آپ کی بزرگی اور عزت وادب کا پاس رہے ۔ اسی کے مثل آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ ١٠٤؁ ) 2- البقرة:104 ) ہے اور اسی جیسی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ Ą۝ ) 49- الحجرات:2 ) ہے یعنی ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو ۔ آپ کے سامنے اونچی اونچی آوازوں سے نہ بولو جیسے کہ بےتکلفی سے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو اگر ایسا کیا تو سب اعمال غارت ہوجائیں گے اور پتہ بھی نہ چلے ۔ یہاں تک کہ فرمایا جو لوگ تجھے حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بےعقل ہیں اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم خود ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا ۔ پس یہ سب آداب سکھائے گئے کہ آپ سے خطاب کس طرح کریں ، آپ سے بات چیت کس طرح کریں ، آپ کے سامنے کس طرح بولیں چالیں بلکہ پہلے تو آپ سے سرگوشیاں کرنے کے لئے صدقہ کرنے کا بھی حکم تھا ۔ ایک مطلب تو اس آیت کا یہ ہوا ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو تم اپنی دعاؤں کی طرح سمجھو ، آپ کی دعا مقبول ومستجاب ہے ۔ خبردار کبھی ہمارے نبی کو تکلیف نہ دینا کہیں ایسانہ ہو کہ ان کے منہ سے کوئی کلمہ نکل جائے تو تہس نہس ہوجاؤ ۔ اس سے اگلے جملے کی تفسیر میں مقاتل بن حیان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن خطبے میں بیٹھا رہنا منافقوں پر بہت بھاری پڑتا تھا جب کسی کو کوئی ایسی ضرورت ہوتی تو اشارے سے آپ سے اجازت چاہتا اور آپ اجازت دے دیتے اس لئے کہ خطبے کی حالت میں بولنے سے جمعہ باطل ہو جاتا ہے تو یہ منافق آڑ ہی آڑ میں نظریں بچا کر سرک جاتے تھے سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے جماعت میں جب منافق ہوتے تو ایک دوسرے کی آڑ لے کر بھاگ جاتے ۔ اللہ کے پیغمبر سے اور اللہ کی کتاب سے ہٹ جاتے ، صف سے نکل جاتے ، مخالفت پر آمادہ ہوجاتے ۔ جو لوگ امر رسول ، سنت رسول ، فرمان رسول ، طریقہ رسول اور شرع رسول کے خلاف کریں وہ سزا یاب ہونگے ۔ انسان کو اپنے اقوال وافعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور احادیث سے ملانے چاہئیں جو موافق ہوں اچھے ہیں جو موافق نہ ہوں مردود ہے ۔ ظاہر یا باطن میں جو بھی ہے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرے اس کے دل میں کفر ونفاق ، بدعت وبرائی کا بیج بودیا جاتا ہے یا اسے سخت عذاب ہوتا ہے ۔ یا تو دنیا میں ہی قتل قید حد وغیر جیسی سزائیں ملتی ہیں یا آخرت میں عذاب اخروی ملے گا ۔ مسند احمد میں حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی جب وہ روشن ہوئی تو پتنگوں اور پروانوں کا اجتماع ہوگیا اور وہ دھڑا دھڑ اس میں گرنے لگے ۔ اب یہ انہیں ہر چند روک رہا ہے لیکن وہ ہیں شوق سے اس میں گرے جاتے ہیں اور اس شخص کے روکنے سے نہیں روکتے ۔ یہی حالت میری اور تمہاری ہے کہ تم آگ میں گرنا چاہتے ہو اور میں تمہیں اپنی باہوں میں لپیٹ لپیٹ کر اس سے روک رہا ہوں کہ آگ میں نہ گھسو ، آگ سے بچو لیکن تم میری مانتے اور اس آگ میں گھسے چلے جا رہے ہو ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔