Surah

Information

Surah # 1 | Verses: 7 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 5 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ‏ ﴿2﴾
بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ۔
الرحمن الرحيم
The Entirely Merciful, the Especially Merciful,
Bara meharban nihayat reham kerney wala.
جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
بہت مہربان رحمت والا
رحمان اور رحیم ہے 4
نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :4 انسان کا خاصہ ہے کہ جب کوئی چیز اس کی نگاہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ مبالغہ کے صیغوں میں اس کو بیان کرتا ہے ، اور اگر ایک مبالغہ کا لفظ بول کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس شے کی فراوانی کا حق ادا نہیں ہوا ، تو پھر وہ اسی معنی کا ایک اور لفظ بولتا ہے تاکہ وہ کمی پوری ہوجائے جو اس کے نزدیک مبالغہ میں رہ گئی ہے ۔ اللہ کی تعریف میں رحمن کا لفظ استعمال کرنے کے بعد پھر رحیم کا اضافہ کرنے میں بھی یہی نقطہ پوشیدہ ہے ۔ رحمان عربی زبان میں بڑے مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ لیکن خدا کی رحمت اور مہر بانی اپنی مخلوق پر اتنی زیادہ ہے ، اس قدر وسیع ہے ، ایسی بے حد و حساب ہے کہ اس کے بیان میں بڑے سے بڑا مبالغہ کا لفظ بول کر بھی جی نہیں بھرتا ۔ اس لیے اس کی فراوانی کا حق ادا کرنے کے لیے پھر رحیم کا لفظ مزید استعمال کیا گیا ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں سخی کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں تو اس پر داتا کا اضافہ کرتے ہیں ۔ رنگ کی تعریف میں جب گورے کو کافی نہیں پاتے تو اس پر چٹےّ کا لفظ اور بڑھا دیتے ہیں ۔ درازیِ قد کے ذکر میں جب لمبا کہنے سے تسلّی نہیں ہوتی تو اس کے بعد تڑنگا بھی کہتے ہیں ۔
بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان اس کی تفسیر پہلے پوری گزر چکی ہے اب اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ قرطبی فرماتے ہیں آیت ( رب العلمین کے وصف کے بعد آیت ( الرحمن الرحیم کا وصف ترہیب یعنی ڈراوے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( نبی عبادی الخ یعنی میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی دردناک عذاب ہیں ۔ اور فرمایا تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے ۔ رب کے لفظ میں ڈراوا ہے اور رحمن اور رحیم کے لفظ میں امید ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ایماندار اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا تو اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو کبھی ناامید نہ ہوتا ۔