Surah

Information

Surah # 27 | Verses: 93 | Ruku: 7 | Sajdah: 1 | Chronological # 48 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قَالُوا اطَّيَّرۡنَا بِكَ وَبِمَنۡ مَّعَكَ‌ ؕ قَالَ طٰٓٮِٕرُكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ تُفۡتَـنُوۡنَ‏ ﴿47﴾
وہ کہنے لگے ہم تو تیری اور تیرے ساتھیوں کی بد شگونی لے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا تمہاری بد شگونی اللہ کے ہاں ہے ، بلکہ تم فتنے میں پڑے ہوئے لوگ ہو ۔
قالوا اطيرنا بك و بمن معك قال طىركم عند الله بل انتم قوم تفتنون
They said, "We consider you a bad omen, you and those with you." He said, "Your omen is with Allah . Rather, you are a people being tested."
Woh kehnay lagay hum to teri aur teray sathiyon ki bad-shagooni ley rahey hain? Aap ney farmaya tumhari bad-shagooni Allah kay haan hai bulkay tum fitney mein paray huye log ho.
انہوں نے کہا : ہم نے تو تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے برا شگون لیا ہے ، ( ٢٣ ) ۔ صالح نے کہا تمہارا شگون تو اللہ کے قبضے میں ہے ، البتہ تم لوگوں کی آزمائش ہورہی ہے ۔ ( ٢٤ )
بولے ہم نے برُا شگون کیا تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے ( ف۸۱ ) فرمایا تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے ( ف۸۲ ) بلکہ تم لوگ فتنے میں پڑے ہو ( ف۸۳ )
” انہوں نے کہا ” ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بدشگونی کا نشان پایا ہے ۔ 60 ” صالح ( علیہ السلام ) نے جواب دیا ” تمہارے نیک و بدشگون کا سرشتہ تو اللہ کے پاس ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے ۔ ”61
وہ کہنے لگے: ہمیں تم سے ( بھی ) نحوست پہنچی ہے اور ان لوگوں سے ( بھی ) جو تمہارے ساتھ ہیں ۔ ( صالح علیہ السلام نے ) فرمایا: تمہاری نحوست ( کا سبب ) اللہ کے پاس ( لکھا ہوا ) ہے بلکہ تم لوگ فتنہ میں مبتلا کئے گئے ہو
سورة النمل حاشیہ نمبر : 60 ان کے اس قول کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ تحریک ہمارے لیے سخت منحوس ثابت ہوئی ہے ، جب سے تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے دین آبائی کے خلاف یہ بغاوت شروع کی ہے ہم پر آئے دن کوئی نہ کوئی مصیبت نازل ہوتی رہتی ہے ، کیونکہ ہمارے معبود ہم سے ناراض ہوگئے ہیں ، اس معنی کے لحاظ سے یہ قول اکثر ان مشرک قوموں کے اقوال سے مشابہ ہے جو اپنے انبیاء کو منحوس قرار دیتی تھیں ۔ چنانچہ سورہ یسین میں ایک قوم کا ذکر آتا ہے کہ اس نے اپنے انبیاء سے کہا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ، ہم نے تم کو منحوس پایا ہے ( آیت 18 ) یہی بات فرعون کی قوم حضرت موسی کے متعلق کہتی تھی: فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ۔ جب ان پر کوئی اچھا وقت آتا تو کہتے کہ ہمارے لیے یہی ہے اور جب کوئی مصیبت آجاتی تو موسی اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کو اس کا ذمہ ٹھہراتے ۔ ( الاعراف ، آیت 131 ) قریب قریب ایسی ہی باتیں مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی کہی جاتی تھیں ۔ دوسرا مطلب اس قول کا یہ ہے کہ تمہارے آتے ہی ہماری قوم میں پھوٹ پڑ گئی ہے ، پہلے ہم ایک قوم تھے جو ایک دین پر مجتمع تھے ، تم ایسے سبز قدم آئے کہ بھائی بھائی کا دشمن ہوگیا اور بیٹا باپ سے کٹ گیا ، اس طرح قوم کے اندر ایک نئی قوم اٹھ کھڑی ہونے کا انجام ہمیں اچھا نظر نہیں آتا ، یہی وہ الزام تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین آپ کے خلاف بار بار پیش کرتے تھے ، آپ کی دعوت کا آغاز ہوتے ہی سرداران قریش کا جو وفد ابو طالب کے پاس گیا تھا اس نے یہی کہا تھا کہ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردو جس نے تمہارے دین اور تمہارے باپ دادا کے دین کی مخالفت کی ہے اور تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ساری قوم کو بے وقوف قرار دیا ہے ۔ ( ابن ہشام جلد اول ، ص 285 ) حج کے موقعہ پر جب کفار مکہ کو اندیشہ ہوا کہ باہر کے زائرین آکر کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر نہ ہوجائیں تو انہوں نے باہم مشورہ کرنے کے بعد یہی طے کیا کہ قبائل عرب سے کہا جائے یہ شخص جادوگر ہے ، اس کے جادو کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بیٹا باپ سے ، بھائی بھائی سے ، بیوی شوہر سے اور آدمی اپنے سارے خاندان سے کٹ جاتا ہے ۔ ( ابن ہشام ، ص 289 ) سورة النمل حاشیہ نمبر : 61 یعنی بات وہ نہیں ہے جو تم نے سمجھ رکھی ہے ، اصل معاملہ جسے اب تک تم نہیں سمجھے ہو یہ ہے کہ میرے آنے سے تمہارا امتحان شروع ہوگیا ہے ۔ جب تک میں نہ آیا تھا تم اپنی جہالت میں ایک ڈگر پر چلے جارہے تھے ، حق اور باطل کا کوئی کھلا امتیاز سامنے نہ تھا ، کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کا کوئی معیار نہ تھا ، بدتر سے بدتر لوگ اونچے ہورہے تھے ، اور اچھی سے اچھی صلاحیتوں کے لوگ خاک میں ملے جارہے تھے ، مگر اب ایک کسوٹی آگئی ہے جس پر تم سب جانچے اور پرکھے جاؤ گے ، اب بیچ میدان میں ایک ترازو رکھ دیا گیا ہے جو ہر ایک کو اس کے وزن کے لحاظ سے تولے گا ، اب حق اور باطل آمنے سامنے موجود ہیں ، جو حق کو قبول کرے گا وہ بھاری اترے گا خواہ آج تک اس کی کوڑی بھر بھی قیمت نہ رہی ہو ۔ اور جو باطل پر جمے گا اس کا وزن رتی بھر بھی نہ رہے گا چاہے وہ آج تک امیر الامراء ہی بنا رہا ہو ، اب فیصلہ اس پر نہیں ہوگا کہ کون کس خاندان کا ہے اور کس کے ذرائع و وسائل کتنے ہیں ، اور کون کتنا زور رکھتا ہے ، بلکہ اس پر ہوگا کہ کون سیدھی طرح صداقت کو قبول کرتا ہے اور کون جھوٹ کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کردیتا ہے ۔