Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَلَا تُجَادِلُوۡٓا اَهۡلَ الۡكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُۖ اِلَّا الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡهُمۡ‌ وَقُوۡلُوۡٓا اٰمَنَّا بِالَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡنَا وَاُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ وَاِلٰهُـنَا وَاِلٰهُكُمۡ وَاحِدٌ وَّنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿46﴾
اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے ۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں ۔
و لا تجادلوا اهل الكتب الا بالتي هي احسن الا الذين ظلموا منهم و قولوا امنا بالذي انزل الينا و انزل اليكم و الهنا و الهكم واحد و نحن له مسلمون
And do not argue with the People of the Scripture except in a way that is best, except for those who commit injustice among them, and say, "We believe in that which has been revealed to us and revealed to you. And our God and your God is one; and we are Muslims [in submission] to Him."
Aur ehal-kitab kay sath behas-o-mubahisa na kero magar iss tareeqay per jo umdah ho magar unn kay sath jo unn mein zalim hain aur saaf aeylaan kerdo kay humara to iss kitab per bhi eman hai jo hum per utari gaee hai aur iss per bhi jo tum per utari gaee hai humara tumhara mabood aik hi hai. Hum sab ussi kay hukum bardaar hain.
اور ( مسلمانو ) اہل کتاب سے بحث نہ کرو ، مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو ۔ البتہ ان میں سے جو زیادتی کریں ، ان کی بات اور ہے ۔ ( ٢٧ ) اور ( ان سے ) یہ کہو کہ : ہم اس کتاب پر بھی ایمان لائے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے ، اور اس پر بھی جو تم پر نازل کی گئی تھی ، اور ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہے ، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں ۔
اور اے مسلمانو! کتابیوں سے نہ جھگڑو مگر بہتر طریقہ پر ( ف۱۱۲ ) مگر وہ جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ( ف۱۱۳ ) اور کہو ( ف۱۱٤ ) ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو تمہاری طرف اترا اور ہمارا تمہارا ایک معبود ہے اور ہم اس کے حضور گردن رکھتے ہیں ( ف۱۱۵ )
اور اہل کتاب 80 سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے81 ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں82 ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان سے کہو کہ ” ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی ، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مسلم ( فرمابردار ) ہیں ۔ ”83
اور ( اے مومنو! ) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ، اور ( ان سے ) کہہ دو کہ ہم اس ( کتاب ) پر ایمان لائے ( ہیں ) جو ہماری طرف اتاری گئی ( ہے ) اور جو تمہاری طرف اتاری گئی تھی ، اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے ، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 80 واضح رہے کہ آگے چل کر اسی سورہ میں ہجرت کی تلقین کی جارہی ہے ۔ اس وقت حبش ہی ایک ایسا مامن تھا جہاں مسلمان ہجرت کر کے جاسکتے تھے ۔ اور حبش پر اس زمانے میں عیسائیوں کا غلبہ تھا ، اس لیے ان آیات میں مسلمانوں کو ہدایات دی جارہی ہیں کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو ان سے دین کے معاملہ میں بحث و کلام کا کیا انداز اختیار کریں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 81 یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ ، مہذب و شائستہ زبان میں ، اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے ، تاکہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہوسکے ۔ مبلغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہ راست پر لائے ۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے ۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے ، اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفا یاب ہوجائے ۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے ، مگر یہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے ۔ مثلا: اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۔ ( النحل ، آیت 125 ) دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو نصیحت کے ساتھ ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو ۔ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ۔ ( حم السجدہ ، آیت 34 ) بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں ( مخالفین کے حملوں کی ) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے گرم جوش دوست ہے ۔ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ ۔ ( المومنون ، آیت 96 ) ( تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ ( تمہارے خلاف ) بناتے ہیں ۔ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ۔ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۔ ( الاعراف ، آیت 199 ۔ 200 ) درگزر کی روش اختیار کرو ، بھلائی کی تلقین کرو ، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو ، اور اگر ( ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے ) شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 82 یعنی جو لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعی حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے ۔ اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی ، شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 83 ان فقروں میں اللہ تعالی نے خود اس عمدہ طریق بحث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جسے تبلیغ حق کی خدمت انجام دینے والوں کو اختیار کرنا چاہیے ۔ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جس شخص سے تمہیں بحث کرنی ہو اس کی گمراہی کو بحث کا نقطہ آغاز نہ بناؤ ، بلکہ بات اس سے شروع کرو کہ حق و صداقت کے وہ کونے اجزاء ہیں جو تمہارے اور اس کے درمیان مشترک ہیں ، یعنی آغاز کلام نکات اختلاف سے نہیں بلکہ نکات اتفاق سے ہونا چاہیے پھر انہی متفق علیہ امور سے استدلال کر کے مخاطب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن امور میں تمہارے اور اس کے درمیان اختلاف ہے ان میں تمہارا مسلک متفق علیہ بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا مسلک ان سے متضاد ہے ۔ اس سلسلے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہل کتاب مشرکین عرب کی طرح وحی و رسالت اور توحید کے منکر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کی طرح ان سب حقیقتوں کو مانتے تھے ۔ ان بنیادی امور میں اتفاق کے بعد اگر کوئی بڑٰ چیز بنیاد اختلاف ہوسکتی تھی تو وہ یہ کہ مسلمان ان کے ہاں آئی ہوئی آسمانی کتابوں کو نہ مانتے اور اپنے ہاں آئی ہوئی کتاب پر ایمان لانے کی انہیں دعوت دیتے اور اس کے نہ ماننے پر انہیں کافر قرار دیتے ۔ یہ جھگڑے کی بڑی مضبوط وجہ ہوتی ، لیکن مسلمانوں کا موقف اس سے مختلف تھا ۔ وہ تمام ان کتابوں کو برحق تسلیم کرتے تھے جو اہل کتاب کے پاس موجود تھیں ، اور پھر اس وحی پر ایمان لائے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی ۔ اس کے بعد یہ بتانا اہل کتاب کا کام تھا کہ کس معقول وجہ سے وہ خدا ہی کی نازل کردہ ایک کتاب کو مانتے اور دوسری کتاب کا انکار کرتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے یہاں مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ اہل کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو سب سے پہلے مثبت طور پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے پیش کرو ۔ ان سے کہو کہ جس خدا کو تم مانتے ہو سای کو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں ۔ اس کی طرف سے جو احکام و ہدایات اور تعلیمات بھی آئی ہیں ان سب کے آگے ہمارا سر تسلیم خم ہے ، خواہ وہ تمہارے ہاں آئی ہوں یا ہمارے ہاں ۔ ہم تو حکم کے بندے ہیں ۔ ملک اور قوم اور نسل کے بندے نہیں نہیں کہ ایک جگہ خدا کا حکم آئے تو ہم مانیں اور اسی خدا کا حکم دوسری جگہ آئے تو ہم اس کو نہ مانیں ۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ دہرائی گئی ہے اور خصوصا اہل کتاب سے جہاں سابقہ پیش آیا ہے وہاں تو اسے زور دے کر بیان کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ البقرہ آیات 4 ۔ 136 ۔ 177 ۔ 285 ۔ آل عمران آیت 84 ۔ النساء 136 ۔ 150 تا 152 ۔ 162 تا 164 ۔ الشوری 13 ۔
غیر مسلموں کو دلائل سے قائل کرو حضرت قتادۃ وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ یہ آیت تو جہاد کے حکم کے ساتھ منسوخ ہے اب تو یہی ہے کہ یا تو اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یالڑائی لڑیں ۔ لیکن اور بزرگ مفسرین کا قول ہے کہ یہ حکم باقی ہے جو یہودی یا نصرانی دینی امور کو سجھنا چاہے اور اسے مہذب طریقے پر سلجھے ہوئے پیرائے سے سمجھا دینا چاہئے ۔ کیا عجیب ہے کہ وہ راہ راست اختیار کرے ۔ جیسے اور آیت میں عام حکم موجود ہے آیت ( اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ١٢٥؁ ) 16- النحل:125 ) اپنے رب کی راہ کی دعوت حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ لوگوں کو دو ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو جب فرعون کے طرف بھیجاجاتا ہے تو فرمان ہوتا ہے کہ آیت ( فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى 44؀ ) 20-طه:44 ) یعنی اس سے نرمی سے گفتگو کرنا کیا عجب کہ وہ نصیحت قبول کرلے اور اس کا دل پگھل جائے ۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے ۔ اور حضرت ابن زید سے یہی مروی ہے ۔ ہاں ان میں سے جو ظلم پر اڑ جائیں اور ضد اور تعصب برتیں حق کو قبول کرنے سے انکار کردیں پھر مناظرے مباحثے بےسود ہیں پھر تو جدال وقتال کا حکم ہے ۔ جیسے جناب باری عز اسمہ کا ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ 25۝ۧ ) 57- الحديد:25 ) ہم نے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ہمراہ کتاب ومیزان نازل فرمائی تاکہ لوگوں میں عدل و انصاف کا قیام ہوسکے ۔ اور ہم نے لوہا بھی نازل فرمایا جس میں سخت لڑائی ہے ۔ پس حکم اللہ یہ ہے کہ بھلائی سے اور نرمی سے جو نہ مانے اس پر پھر سختی کی جائے ۔ جو لڑے اسی سے لڑا جائے ہاں یہ اور بات ہے کہ ماتحتی میں رہ کر جزیہ ادا کرے ۔ پھر تصدیق کردیا کرو ممکن ہے کسی امر حق کو تم جھٹلادو اور ممکن ہے کسی باطل کی تم تصدیق کر بیٹھو ۔ پس شرط یہ ہے کہ تصدیق کرو یعنی کہہ دو کہ ہمارا اللہ کی ہر بات پر ایمان ہے اگر تمہاری پیش کردہ چیز اللہ کی نازل کردہ ہے تو ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اگر تم نے تبدیل وتحریف کردی ہے تو ہم اسے نہیں مانتے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اہل کتاب توراۃ کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور ہمارے سامنے عربی میں اس کا ترجمہ کرتے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ تم انہیں سچا کہو نہ جھوٹا بلکہ تم آیت ( امنا بالذی ) سے آخر آیت تک پڑھ دیاکرو ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا اور کہنے لگا کیا یہ جنازے بولتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی کو علم ہے ۔ اس نے کہا میں جانتا ہوں یہ یقینا بولتے ہیں اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اہل کتاب جب تم سے کوئی بات بیان کریں تو تم نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب بلکہ کہدو ہمارا اللہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے ۔ یہ اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو تم کسی جھوٹ کو سچا کہہ دو یا کسی سچ کو جھوٹ بتادو ۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ ان اہل کتاب کی اکثروبیشتر باتیں تو غلط اور جھوٹ ہی ہوتی ہیں عموما بہتان و افتراء ہوتا ہے ۔ ان میں تحریف و تبدل تغیر وتاویل رواج پاچکی ہے اور صداقت ایسی رہ گئی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں ۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ بالفرض سچ بھی ہو تو ہمیں کیا فائدہ؟ ہمارے پاس تو اللہ کی تازہ اور کامل کتاب موجود ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں اہل کتاب سے تم کچھ بھی نہ پوچھو ۔ وہ خود جبکہ گمراہ ہیں تو تمہاری تصحیح کیا کریں گے؟ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی کسی سچ بات کو تم جھوٹا کہہ دو ۔ یا ان کی کسی جھوٹی بات کو تم سچ کہہ دو ۔ یاد رکھو ہر اہل کتاب کے دل میں اپنے دین کا ایک تعصب ہے ۔ جیسے کہ مال کی خواہش ہے ( ابن جریر ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تم اہل کتاب سے سوالات کیوں کرتے ہو؟ تم پر تو اللہ کی طرف سے ابھی ابھی کتاب نازل ہوئی ہے جو بالکل خالص ہے جس میں باطل نہ ملا نہ مل جل سکے ۔ تم سے تو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے دین کو بدل ڈالا ۔ اللہ کی کتاب میں تغیر کردیا اور اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو اللہ کی کتاب کہنے لگے اور دنیوی نفع حاصل کرنے لگے ۔ کیوں بھلا تمہارے پاس جو علم اللہ ہے کیا وہ تمہیں کافی نہیں؟ کہ تم ان سے دریافت کرو ۔ دیکھو تو کس قدر ستم ہے کہ ان میں سے تو ایک بھی تم سے کبھی کچھ نہ پوچھے اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو؟ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینے میں قریش کی ایک جماعت کے سامنے فرمایا کہ دیکھو ان تمام اہل کتاب میں اور ان کی باتیں بیان کرنے والوں میں سب سے اچھے حضرت کعب بن احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے لیکن باوجود اس کے بھی ان کی باتوں میں بھی ہم کبھی کھبی جھوٹ پاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمدا جھوٹ بولتے ہیں بلکہ جن کتابوں پر انہیں اعتماد ہے وہ خود گیلی سوکھی سب جمع کر لیتے ہیں ان میں خود سچ جھوت صحیح غلط بھرا پڑا ہے ۔ ان میں مضبوط ذی علم حافظوں کی جماعت تھی ہی نہیں ۔ یہ تو اسی امت مرحومہ پر اللہ کا فضل ہے کہ اس میں بہترین دل ودماغ والے اور اعلیٰ فہم وذکا والے اور عمدہ حفظ و اتقان والے لوگ اللہ نے پیدا کردیئے ہیں لیکن پھر بھی آپ دیکھئے کہ کس قدر موضوعات کا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے؟ اور کس طرح لوگوں نے باتیں گھڑلی ہیں ۔ محدثین نے اس باطل کو حق سے بالکل جدا کردیا فالحمدللہ ۔