Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِيۡسٰى مِنۡهُمُ الۡكُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ‌ؕ قَالَ الۡحَـوَارِيُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰهِ‌ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ‌ۚ وَاشۡهَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿52﴾
مگر جب حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) نے ان کا کفر محسوس کرلیا تو کہنے لگے اللہ تعالٰی کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالٰی کی راہ کے مددگار ہیں ہم اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں ۔
فلما احس عيسى منهم الكفر قال من انصاري الى الله قال الحواريون نحن انصار الله امنا بالله و اشهد بانا مسلمون
But when Jesus felt [persistence in] disbelief from them, he said, "Who are my supporters for [the cause of] Allah ?" The disciples said," We are supporters for Allah . We have believed in Allah and testify that we are Muslims [submitting to Him].
Maga jab hazrat essa ( alh-e-salam ) ney unn ka kufur mehsoos ker liya to kehney lagay Allah Taalaa ki raah mein meri madad kerney wala kaun kaun hai? Hawariyon ney jawab diya kay hum Allah Taalaa ki raah kay madadgar hain hum Allah Taalaa per eman laye aur aap gawah rahiye kay hum tabeydaar hain.
پھر جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ کفر پر آمادہ ہیں ، تو انہوں نے ( اپنے پیرووں سے ) کہا : کون کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہوں؟ حواریوں ( ٢٢ ) نے کہا : ہم اللہ ( کے دین ) کے مددگار ہیں ، ہم اللہ پر ایمان لاچکے ہیں ، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں ۔
پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا ( ف۱۰٦ ) بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف ، حواریوں نے کہا ( ف۱۰۷ ) ہم دین خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے ، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں ( ف۱۰۸ )
جب عیسٰی نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا ’’ کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو تا ہے‘‘ ؟ حواریوں 49 نے جواب دیا’’ ہم اللہ کے مددگار ہیں ، 50 ہم اللہ پر ایمان لائے ، گواہ رہو کہ ہم مسلم﴿اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینے والے﴾ ہیں ۔
پھر جب عیسٰی ( علیہ السلام ) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ ( کے دین ) کے مددگار ہیں ، ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں ، اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقیناً مسلمان ہیں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :49 ” حواری“ کا لفظ قریب قریب وہی معنی رکھتا ہے جو ہمارے ہاں”انصار“ کا مفہوم ہے ۔ بائیبل میں بالعموم حواریوں کے بجائے ”شاگردوں“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور بعض مقامات پر انہیں رسول بھی کہا گیا ہے ۔ مگر رسول اس معنی میں کہ مسیح علیہ السلام ان کو تبلیغ کے لیے بھیجتے تھے ، نہ اس معنی میں کہ خدا نے ان کو رسول مقرر کیا تھا ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :50 دین اسلام کی اقامت میں حصہ لینے کو قرآن مجید میں اکثر مقامات پر”اللہ کی مدد کرنے“ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے ۔ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی عطا کی ہے ، اس میں وہ انسان کو کفر یا ایمان ، بغاوت یا اطاعت میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے پر اپنی خدائی طاقت سے مجبور نہیں کرتا ۔ اس کے بجائے وہ دلیل اور نصیحت سے انسان کو اس بات کا قائل کرنا چاہتا ہے کہ انکار و نافرمانی اور بغاوت کی آزادی رکھنے کے باوجود اس کے لیے حق یہی ہے اور اس کی فلاح و نجات کا راستہ بھی یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت اختیار کرے ۔ اس طرح فہمائش اور نصیحت سے بندوں کو راہ راست پر لانے کی تدبیر کرنا ، یہ دراصل اللہ کا کام ہے ۔ اور جو بندے اس کام میں اللہ کا ساتھ دیں ان کو اللہ اپنا رفیق و مددگار قرار دیتا ہے ۔ اور یہ وہ بلند سے بلند مقام ہے جس پر کسی بندے کی پہنچ ہو سکتی ہے ۔ نماز ، روزہ اور تمام اقسام کی عبادات میں تو انسان محض بندہ و غلام ہوتا ہے ۔ مگر تبلیغ دین اور اقامت دین کی جدوجہد میں بندے کو خدا کی رفاقت و مددگاری کا شرف حاصل ہوتا ہے جو اس دنیا میں روحانی ارتقا کا سب سے اونچا مرتبہ ہے ۔
پھانسی کون چڑھا ؟ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ لیا کہ اپنی گمراہی کج روی اور کفر و انکار سے یہ لوگ ہٹتے ہی نہیں ، تو فرمانے لگے کہ کوئی ایسا بھی ہے؟ جو اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے لئے میری تابعداری کرے اس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو اللہ جل شانہ کے ساتھ میرا مددگار بنے؟ لیکن پہلا قول زیادہ قریب ہے ، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ جل شانہ کی طرف پکارنے میں میرا ہاتھ بٹانے والا کون ہے؟ جیسے کہ نبی اللہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف سے ہجرت کرنے کے پہلے موسم حج کے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے اللہ جل شانہ کا کلام پہنچانے کے لئے جگہ دے؟ قریش تو کلام الٰہی کی تبلیغ سے مجھے روک رہے ہیں یہاں تک کہ مدینہ شریف کے باشندے انصار کرام اس خدمت کے لئے کمربستہ ہوئے آپ کو جگہ بھی دی آپ کی مدد بھی کی اور جب آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو پوری خیرخواہی اور بےمثال ہمدردی کا مظاہرہ کیا ، ساری دنیا کے مقابلہ میں اپنا سینہ سپر کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت خیرخواہی اور آپ کے مقاصد کی کامیابی میں ہمہ تن مصروف ہوگئے رضی اللہ عنھم وارضاھم اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس آواز پر بھی چند بنی اسرائیلیوں نے لبیک کہی آپ پر ایمان لائے آپ کی تائید کی تصدیق کی اور پوری مدد پہنچائی اور اس نور کی اطاعت میں لگ گئے جو اللہ ذوالجلال نے ان پر اتارا تھا یعنی انجیل یہ لوگ دھوبی تھے اور حواری انہیں ان کے کپڑوں کی سفیدی کی وجہ سے کہا گیا ہے ، بعض کہتے ہیں یہ شکاری تھے ، صحیح یہ ہے کہ حواری کہتے ہیں مددگار کو ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کوئی جو سینہ سپر ہو جائے؟ اس آواز کو سنتے ہی حضرت زبیر تیار ہوگئے آپ نے دوبارہ یہی فرمایا پھر بھی حضرت زبیر نے ہی قدم اٹھایا پس حضور علیہ السلام نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرا حواری زبیر ہے رضی اللہ عنہ ۔ پھر یہ لوگ اپنی دعا میں کہتے ہیں ہمیں شاہدوں میں لکھ لے ، اس سے مراد حضرت ابن عباس کے نزدیک امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھ لینا ہے ، اس تفسیر کی روایت سنداً بہت عمدہ ہے ، پھر بنی اسرائیل کے اس ناپاک گروہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت عیسیٰ کی طرف سے بھرے تھے کہ یہ شخص لوگوں کو بہکاتا پھرتا ہے ملک میں بغاوت پھیلا رہا ہے اور رعایا کو بگاڑ رہا ہے ، باپ بیٹوں میں فساد برپا کر رہا ہے ، بلکہ اپنی خباثت خیانت کذب و جھوٹ ( دروغ ) میں یہاں تک بڑھ گئے کہ آپ کو زانیہ کا بیٹا کہا اور آپ پر بڑے بڑے بہتان باندھے ، یہاں تک کہ بادشاہ بھی دشمن جان بن گیا اور اپنی فوج کو بھیجا تاکہ اسے گرفتار کر کے سخت سزا کے ساتھ پھانسی دے دو ، چنانچہ یہاں سے فوج جاتی ہے اور جس گھر میں آپ تھے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ناکہ بندی کر کے گھر میں گھستی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو ان مکاروں کے ہاتھ سے صاف بچا لیتا ہے اس گھر کے روزن ( روشن دان ) سے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جاتی ہے جو اسی گھر میں تھا ، یہ لوگ رات کے اندھیرے میں اس کو عیسیٰ سمجھ لیتے ہیں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں٠ سخت توہین کرتے ہیں اور سر پر کانٹوں کو تاج رکھ کر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں ، یہی ان کے ساتھ اللہ کا مکر تھا کہ وہ تو اپنے نزدیک یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے اللہ کے نبی کو پھانسی پر لٹکا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو نجات دے دی تھی ، اس بدبختی اور بدنیتی کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ان کے دل ہمیشہ کے لئے سخت ہوگئے باطل پر اڑ گئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئے اور آخر دنیا تک اس ذلت میں ہی ڈوبے رہے ۔ اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اگر انہیں خفیہ تدبیریں کرنی آتی ہیں تو کیا ہم خفیہ تدبیر کرنا نہیں جانتے بلکہ ہم تو ان سے بہتر خفیہ تدبیریں کرنے والے ہیں ۔