سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :60
دوسرا ترجمہ اس فقرہ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”تم خود گواہی دیتے ہو“ ۔ دونوں صورتوں میں نفس معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی ، اور صحابہ کرام کی زندگیوں پر آپ کی تعلیم و تربیت کے حیرت انگیز اثرات ، اور وہ بلند پایہ مضامین جو قرآن میں ارشاد ہو رہے تھے ، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی ایسی روشن آیات تھیں کہ جو شخص انبیا کے احوال اور کتب آسمانی کے طرز سے واقف ہو اس کے لیے ان آیات کو دیکھ کر آنحضرت کی نبوت میں شک کرنا بہت ہی مشکل تھا ۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ بہت سے اہل کتاب ( خصوصاً ان کے اہل علم ) یہ جان چکے تھے کہ حضور وہی نبی ہیں جن کی آمد کا وعدہ انبیا سے سابقین نے کیا تھا ، حتٰی کہ کبھی کبھی حق کی زبردست طاقت سے مجبور ہو کر ان کی زبانیں آپ کی صداقت اور آپ کی پیش کردہ تعلیم کے برحق ہونے کا اعتراف تک کر گزرتی تھیں ۔ اسی وجہ سے قرآن باربار ان کو الزام دیتا ہے کہ اللہ کی جن آیات کو تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو ، جن کی حقانیت پر تم خود گواہی دیتے ہو ان کو تم قصداً اپنے نفس کی شرارت سے جھٹلا رہے ہو ۔