Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة یٰسٓ نام : آغاز ہی کے دو حرفوں کو اس سورے کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : انداز بیان پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سورہ کا نزول یا تو مکہ کے دور متوسط کا آخری زمانہ ہے ، یا پھر یہ زمانہ قیام مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ہے ۔ موضوع و مضمون : کلام کا مدعا کفار قریش کو نبوت محمدی پر ایمان نہ لانے اور ظلم و استہزاء سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا ہے ۔ اس میں انذار کا پہلو غالب اور نمایاں ہے مگر بار بار اِنذار کے ساتھ استدلال سے تفہیم بھی کی گئی ہے ۔ استدلال تین امور پر کیا گیا ہے : توحید پر آثار کائنات اور عقل عام سے ، آخرت پر آثار کائنات ، عقل عام اور خود انسان کے اپنے وجود سے ، اور رسالت محمدی کی صداقت پر اس بات سے کہ آپ تبلیغ رسالت میں یہ ساری مشقت محض بے غرضانہ برداشت کر رہے تھے ، اور اس امر سے کہ جن باتوں کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ سراسر معقول تھیں اور انہیں قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا بھلا تھا ۔ اس استدلال کی قوت پر زجر و توبیخ اور ملامت و تنبیہ کے مضامین نہایت زور دار طریقہ سے بار بار ارشاد ہوئے ہیں تاکہ دلوں کے قفل ٹوٹیں اور جن کے اندر قبول حق کی تھوڑی سی صلاحیت بھی ہو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں ۔ امام احمد ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ اور طبرانی وغیرہ نے مَعقِل بن یَسار سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یٰس قلب القرآن ، یعنی یہ سورہ قرآن کا دل ہے ۔ یہ اسی طرح کی تشبیہ ہے جس طرح سورہ فاتحہ کو ام القرآن فرمایا گیا ہے ۔ فاتحہ کو ام القرآن قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کی پوری تعلیم کا خلاصہ آگیا ہے ۔ اور یٰس کو قرآن کا دھڑکتا ہوا دل اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کی دعوت کو نہایت پر زور طریقے سے پیش کرتی ہے جس سے جمود ٹوٹتا اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے ۔ انہی حضرت مَعقِل بن یسار سے امام احمد ، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اقرءوا سُورۃ یٰس علیٰ موتاکم ۔ اپنے مرنے والوں پر سورہ یٰس پڑھا کرو ۔ اس کی مصلحت یہ ہے کہ مرتے وقت مسلمان کے ذہن میں نہ صرف یہ کہ تمام اسلامی عقائد تازہ ہو جائیں ، بلکہ خصوصیت کے ساتھ اس کے سامنے عالم آخرت کا پورا نقشہ بھی آجائے اور وہ جان لے کہ حیات دنیا کی منزل سے گزر کر اب آگے کن منزلوں سے اس کو سابقہ پیش آنے والا ہے ۔ اس مصلحت کی تکمیل کے لیے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر عربی داں آدمی کو سورہ یٰس سنانے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنا دیا جائے تاکہ تذکیر کا حق پوری طرح ادا ہو جائے ۔
ترمذی شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن شریف کا دل سورہ یاسین ہے ۔ سورہ یاسین کے پڑھنے والے کو دس قرآن ختم کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کا راوی مجہول ہے ۔ اس باب میں اور روایتیں بھی ہیں لیکن سنداً وہ بھی کچھ ایسی بہت اچھی نہیں اور حدیث میں ہے جو شخص رات کو سورہ یاسین پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے اور جو سورہ دخان پڑھے اسے بھی بخش دیا جاتا ہے اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ۔ مسند کی حدیث میں ہے سورہ بقرہ قرآن کی کوہان ہے اور اس کی بلندی ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی فرشتے اترے ہیں ۔ اس کی ایک آیت یعنی آیت الکرسی عرش کے نیچے سے لائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ملائی گئی ہے سورۃ یٰسین قرآن کا دل ہے اسے جو شخص نیک نیتی سے اللہ کی رضا جوئی کے لئے پڑھے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ اسے ان لوگوں کے سامنے پڑھا کرو جو سکرات کی حالت میں ہوں ۔ بعض علماء کرام رحمتہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ جس سخت کام کے وقت سورہ یاسین پڑھی جاتی ہے اللہ اسے آسان کر دیتا ہے ۔ مرنے والے کے سامنے جب اس کی تلاوت ہوتی ہے تو رحمت و برکت نازل ہوتی ہے اور روح آسانی سے نکلتی ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ مشائخ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایسے وقت سورہ یاسین پڑھنے سے اللہ تعالیٰ تخفیف کر دیتا ہے اور آسانی ہو جاتی ہے ۔ بزار میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ میری چاہت ہے کہ میری امت کے ہر ہر فرد کو یہ سورت یاد ہو ۔