سورة یٰسٓ
نام :
آغاز ہی کے دو حرفوں کو اس سورے کا نام قرار دیا گیا ہے ۔
زمانۂ نزول :
انداز بیان پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سورہ کا نزول یا تو مکہ کے دور متوسط کا آخری زمانہ ہے ، یا پھر یہ زمانہ قیام مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ہے ۔
موضوع و مضمون :
کلام کا مدعا کفار قریش کو نبوت محمدی پر ایمان نہ لانے اور ظلم و استہزاء سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا ہے ۔ اس میں انذار کا پہلو غالب اور نمایاں ہے مگر بار بار اِنذار کے ساتھ استدلال سے تفہیم بھی کی گئی ہے ۔
استدلال تین امور پر کیا گیا ہے :
توحید پر آثار کائنات اور عقل عام سے ،
آخرت پر آثار کائنات ، عقل عام اور خود انسان کے اپنے وجود سے ،
اور رسالت محمدی کی صداقت پر اس بات سے کہ آپ تبلیغ رسالت میں یہ ساری مشقت محض بے غرضانہ برداشت کر رہے تھے ، اور اس امر سے کہ جن باتوں کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ سراسر معقول تھیں اور انہیں قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا بھلا تھا ۔
اس استدلال کی قوت پر زجر و توبیخ اور ملامت و تنبیہ کے مضامین نہایت زور دار طریقہ سے بار بار ارشاد ہوئے ہیں تاکہ دلوں کے قفل ٹوٹیں اور جن کے اندر قبول حق کی تھوڑی سی صلاحیت بھی ہو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں ۔
امام احمد ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ اور طبرانی وغیرہ نے مَعقِل بن یَسار سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یٰس قلب القرآن ، یعنی یہ سورہ قرآن کا دل ہے ۔ یہ اسی طرح کی تشبیہ ہے جس طرح سورہ فاتحہ کو ام القرآن فرمایا گیا ہے ۔ فاتحہ کو ام القرآن قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کی پوری تعلیم کا خلاصہ آگیا ہے ۔ اور یٰس کو قرآن کا دھڑکتا ہوا دل اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کی دعوت کو نہایت پر زور طریقے سے پیش کرتی ہے جس سے جمود ٹوٹتا اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے ۔
انہی حضرت مَعقِل بن یسار سے امام احمد ، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اقرءوا سُورۃ یٰس علیٰ موتاکم ۔ اپنے مرنے والوں پر سورہ یٰس پڑھا کرو ۔ اس کی مصلحت یہ ہے کہ مرتے وقت مسلمان کے ذہن میں نہ صرف یہ کہ تمام اسلامی عقائد تازہ ہو جائیں ، بلکہ خصوصیت کے ساتھ اس کے سامنے عالم آخرت کا پورا نقشہ بھی آجائے اور وہ جان لے کہ حیات دنیا کی منزل سے گزر کر اب آگے کن منزلوں سے اس کو سابقہ پیش آنے والا ہے ۔ اس مصلحت کی تکمیل کے لیے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر عربی داں آدمی کو سورہ یٰس سنانے کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنا دیا جائے تاکہ تذکیر کا حق پوری طرح ادا ہو جائے ۔