Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰٓٮِٕكَةِ اِنِّىۡ جَاعِلٌ فِى الۡاَرۡضِ خَلِيۡفَةً ؕ قَالُوۡٓا اَتَجۡعَلُ فِيۡهَا مَنۡ يُّفۡسِدُ فِيۡهَا وَيَسۡفِكُ الدِّمَآءَۚ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِكَ وَنُقَدِّسُ لَـكَ‌ؕ قَالَ اِنِّىۡٓ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿30﴾
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ؟ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔
و اذ قال ربك للملىكة اني جاعل في الارض خليفة قالوا اتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء و نحن نسبح بحمدك و نقدس لك قال اني اعلم ما لا تعلمون
And [mention, O Muhammad], when your Lord said to the angels, "Indeed, I will make upon the earth a successive authority." They said, "Will You place upon it one who causes corruption therein and sheds blood, while we declare Your praise and sanctify You?" Allah said, "Indeed, I know that which you do not know."
Aur jab teray rab ney farishton say kaha kay mein zamin mein khalifa bananey wala hun to unhon ney kaha aisay shaks ko kiyon khalifa peda kerta hai jo zamin mein fasaad keray aur khoon bahaye? Aur hum teri tasbeeh hamd aur pakeezgi biyan kerney wala hain. Allah Taalaa ney farmaya jo mein janta hun tum nahi jantay.
اور ( اس وقت کا تذکرہ سنو ) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ( ٢٧ ) وہ کہنے لگے ۔ کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد وتقدیس میں لگے ہوئے ہیں ( ٢٨ ) اللہ نے کہا : میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا ، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ( ف۵۳ ) بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا ( ف۵٤ ) اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ۔ ( ف۵۵ )
36 پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں37 سے کہا تھا کہ “ میں زمین میں ایک خلیفہ 38 بنانے والا ہوں ” انہوں نے عرض کیا “کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں ، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرےگا ؟ 39 آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کےلیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں40” فرمایا “میں جانتا ہوں ، جو کچھ تم نہیں جانتے”41”
اور ( وہ وقت یاد کریں ) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو ( نائب ) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور ( ہمہ وقت ) پاکیزگی بیان کرتے ہیں ، ( اللہ نے ) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :36 اُوپر کے رکوع میں بندگیِ ربّ کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق ہے ، پروردگار ہے ، اسی کے قبضہ قدرت میں تمہاری زندگی و موت ہے ، اور جس کائنات میں تم رہتے ہو ، اس کا مالک و مدبّر وہی ہے ، لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لیے اور کوئی دُوسرا طریقہ صحیح نہیں ہو سکتا ۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے ، خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس کی بندگی کرو ، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے ازلی دشمن شیطان کے اشاروں پر چلے ، تو بدترین بغاوت کے مجرم ہو گے اور بدترین انجام دیکھو گے ۔ اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کر دی گئی ہے اور نوعِ انسانی کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے جس کے معلوم ہونے کا کوئی دُوسرا ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے ۔ اس باب سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں ، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس و تخمین سے ربط دے کر آدمی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :37 مَلَک کے اصل معنی عربی میں ”پیامبر“ کے ہیں ۔ اسی کا لفظی ترجمہ فرستادہ یا فرشتہ ہے ۔ یہ محض مجرّد قوتیں نہیں ہیں ، جو تشخُّص نہ رکھتی ہوں ، بلکہ یہ شخصیت رکھنے والی ہستیاں ہیں ، جن سے اللہ اپنی اس عظیم الشان سلطنت کی تدبیر و انتظام میں کام لیتا ہے ۔ یُوں سمجھنا چاہیے کہ یہ سلطنتِ الہٰی کے اہل کار ہیں جو اللہ کے احکام کو نافذ کرتے ہیں ۔ جاہل لوگ انہیں غلطی سے خدائی میں حصّہ دار سمجھ بیٹھے اور بعض نے انہیں خدا کا رشتہ دار سمجھا اور ان کو دیوتا بنا کر ان کی پرستش شروع کر دی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :38 خلیفہ: وہ جو کسی کی مِلک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے ۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا ، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے ۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے ، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا ، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پُورا کرنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے ، یا اصل مالک کے سوا کسی اَور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے ، تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہونگے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :39 یہ فرشتوں کا اعتراض نہ تھا بلکہ استفہام تھا ۔ فرشتوں کی کیا مجال کہ خدا کی کسی تجویز پر اعتراض کریں ۔ وہ ”خلیفہ“ کے لفظ سے یہ تو سمجھ گئے تھے کہ اس زیرِ تجویز مخلوق کو زمین میں کچھ اختیارات سپرد کیے جانے والے ہیں ، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سلطنتِ کائنات کے اس نظام میں کسی با اختیار مخلوق کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے ، اور اگر کسی کی طرف کچھ ذرا سے بھی اختیارات منتقل کر دیے جائیں ، تو سلطنت کے جس حصّے میں بھی ایسا کیا جائے گا ، وہاں کا انتظام خرابی سے کیسے بچ جائے گا ۔ اسی بات کو وہ سمجھنا چاہتے تھے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :40 ”اس فقرے سے فرشتوں کا مدّعا یہ نہ تھا کہ خلافت ہمیں دی جائے ، ہم اس کے مستحق ہیں ، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ حضور کے فرامین کی تعمیل ہو رہی ہے ، آپ کے احکام بجا لانے میں ہم پوری طرح سرگرم ہیں ، مرضیِ مبارک کے مطابق سارا جہان پاک صاف رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آپ کی حمد و ثنا اور آپ کی تسبیح و تقدیس بھی ہم خدامِ ادب کر رہے ہیں ، اب کمی کس چیز کی ہے کہ اس کے لیے ایک خلیفہ کی ضرورت ہو؟ ہم اس کی مصلحت نہیں سمجھ سکے ۔ ( تسبیح کا لفظ ذو معنیَین ہے ۔ اس کے معنی پاکی بیان کرنے کے بھی ہیں اور سرگرمی کے ساتھ کام اور انہماک کے ساتھ سعی کرنے کے بھی ۔ اسی طرح تقدیس کے بھی دو معنی ہیں ، ایک تقدیس کا اظہار و بیان ، دُوسرے پاک کرنا ) ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :41 یہ فرشتوں کے دُوسرے شبہہ کا جواب ہے ۔ یعنی فرمایا کہ خلیفہ مقرر کرنے کی ضرورت و مصلحت میں جانتا ہوں تم اسے نہیں سمجھ سکتے ۔ اپنی جن خدمات کا تم ذکر کر رہے ہو ، وہ کافی نہیں ہیں ، بلکہ ان سے بڑھ کر کچھ مطلب ہے ۔ اسی لیے زمین میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کی طرف کچھ اختیارات منتقل کیے جائیں ۔
خلافت آدم کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ ۔ ابو عبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ اذ یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ آیت ( هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ ) 35 ۔ فاطر:39 ) دوسری جگہ فرمایا آیت ( وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ) 27 ۔ النمل:62 ) یعنی تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنا دیا اور ارشاد ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے ۔ ایک شاذ قرأت میں خلیفہ بھی ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد صرف حضرت آدم ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں ۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص حضرت آدم کی نسبت ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا ؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ خلیفہ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی ۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں ۔ فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے آیت ( لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:27 ) یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے ( اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے ) بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لئے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لئے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔ یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں ، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے ۔ ان میں عابد ، زاہد ، اولیاء ، ابرار ، نیکوکار ، مقرب بارگاہ ، علماء ، صلحاء ، متقی ، پرہیزگار ، خوف الٰہی ، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے ۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے ، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں ۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں ۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے ۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے ۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے ۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے واللہ اعلم ۔ حسن قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی ۔ سدی کہتے ہیں مشورہ لیا ۔ لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہو سکتے ہیں ۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بےوزن ہو جاتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے ۔ یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے واللہ اعلم ۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے ۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہو گا ؟ اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں ، حسد و بغض کریں ، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد حضرت آدم ہیں ۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے ۔ خلیفہ فعیلہ کے وزن پر ہے ۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں ۔ خلف فلان فلانا فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اور اسی لئے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے محمد بن اسحق کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پہلے زمین میں جنات بستے تھے ۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کیا ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے ۔ پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم ہیں جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں ۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی ۔ بعض صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت حسن اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے اس بنا پر انہوں نے سوال کیا ابو جعفر محمد بن علی فرماتے ہیں سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے ۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی ۔ ایک مرتبہ اس نے آدم علیہ السلام کی پپدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کر دی ۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو ۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا ۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے ۔ یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے ۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہو گی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لئے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی ۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الٰہیہ کے لئے آمادگی ظاہر کی فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بے ادبی سے بچنا ، بڑائی اور عظمت کرنا ہے ۔ فرماں برداری کرنا سبوح قدوس وغیرہ پڑھنا ہے ۔ قدس کے معنی پاک کے ہیں ۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا سبحان اللہ وبحمدہ ( صحیح مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی سبحان العلی الاعلی سبحانہ خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت ٭٭ امام قرطبی وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے ، ان کے جھگڑے چکائے ، مظلوب کا بدلہ ظالم سے لے ، حدیں قائم کرے ، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے ۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چپز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا ۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو ۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے کیا ۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا ۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا یا اہل حل و عقد ( یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ ) اس کی بیعت پر اجماع کرلیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا ۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم ۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بےبس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے ۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے ۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں ، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں ۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں ۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختار کر دیا اور آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے ۔ واللہ اعلم ۔ امام کا مرد ہونا ، آزاد ہونا ، بالغ ہونا ، عقلمند ہونا ، مسلمان ہونا ، عادل ہونا ، مجتہد ہونا ، آنکھوں والا ہونا ، صحیح سالم اعضاء والا ہونا ، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا ، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے ۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں ۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہو جائے تو اسے معزول کر دینا چاہیے یا نہیں؟ اس میں اخلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو ، اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں بھی اختلاف ہے ۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خودبخود آپ ہی معزول ہو گئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے ۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو ۔ جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں ۔ کرامیہ ( شیعہ ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہو سکتے ہیں جیسے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں اطاعت کے لائق تھے ۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو؟ نبوت کا مرتبہ تو یقینا امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے ( لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو ۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا ) امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو ۔ امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں ، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا ۔ اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے ۔