Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِيۡعُوۡا فَرِيۡقًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ يَرُدُّوۡكُمۡ بَعۡدَ اِيۡمَانِكُمۡ كٰفِرِيۡنَ‏ ﴿100﴾
اے ایمان والو! اگر تم اہلِ کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد مُرتد کافر بنا دیں گے ۔
يايها الذين امنوا ان تطيعوا فريقا من الذين اوتوا الكتب يردوكم بعد ايمانكم كفرين
O you who have believed, if you obey a party of those who were given the Scripture, they would turn you back, after your belief, [to being] unbelievers.
Aey eman walo! Agar tum ehal-e-kitab ki kissi jamat ki baaten maano gay to woh tumhen tumharay eman laney kay baad murtid kafir bana den gay.
اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی بات مان لو گے تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تم کو دوبارہ کافر بان کر چھوڑیں گے ۔
اے ایمان والو! اگر تم کچھ کتابیوں کے کہے پر چلے تو وہ تمہارے ایمان کے بعد کافر کر چھوڑیں گے ( ف۱۸۵ )
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے ۔ تمہارے لیے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے ،
اے ایمان والو! اگر تم اہلِ کتاب میں سے کسی گروہ کا بھی کہنا مانو گے تو وہ تمہارے ایمان ( لانے ) کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں گے
کامیابی کا انحصار کس پر ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اہل کتاب کے اس بدباطن فرقہ کی اتباع کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ یہ حاسد ایمان کے دشمن ہیں اور عرب کی رسالت انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( ودکثیر ) الخ ، یہ لوگ جل بھن رہے ہیں ۔ اور تمہیں ایمان سے ہٹانا چاہتے ہیں تم ان کے کھوکھلے دباؤ میں نہ آجانا ، گو کفر تم سے بہت دور ہے لیکن پھر بھی میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں ، اللہ تعالیٰ کی آیتیں دن رات تم میں پڑھی جا رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا سچا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( مالکم لا تومنون باللہ ) تم ایمان کیسے نہ لاؤ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تمہارے رب کی طرف بلا رہے ہیں اور تم سے عہد بھی لیا جا چکا ہے ، حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب سے پوچھا تمہارے نزدیک سب سے بڑا ایمان والا کون ہے؟ انہوں نے کہا فرشتے آپ نے فرمایا بھلا وہ ایمان کیوں نہ لاتے؟ انہیں تو اللہ تعالیٰ کی وحی سے براہ راست تعلق ہے ، صحابہ نے کہا پھر ہم ، فرمایا تم ایمان کیوں نہ لاتے تم میں تو میں خود موجود ہوں صحابہ نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی ارشاد فرمائیں فرمایا کہ تمام لوگوں سے زیادہ عجیب ایمان والے وہ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے وہ کتابوں میں لکھا پائیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے ( امام ابن کثیر نے اس حدیث کی سندوں کا اور اس کے معنی کا پورا بیان شرح صحیح بخاری میں کر دیا ہے فالحمد للہ ) پھر فرمایا کہ باوجود اس کے تمہارا مضبوطی سے اللہ کے دین کو تھام رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر پورا توکل رکھنا ہی موجب ہدایت ہے اسی سے گمراہی دور ہوتی ہے یہی شیوہ رضا کا باعث ہے اسی سے صحیح راستہ حاصل ہوتا ہے اور کامیابی اور مراد ملتی ہے ۔