Surah

Information

Surah # 42 | Verses: 53 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 62 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 23, 24, 25, 27, from Madina
وَلَوۡ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَلٰكِنۡ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ‌ؕ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيۡرٌۢ بَصِيۡرٌ‏ ﴿27﴾
اگر اللہ تعالٰی اپنے ( سب ) بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد برپا کر دیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے نازل فرماتا ہے وہ اپنے بندوں سے پورا خبردار ہے اور خوب دیکھنے والا ہے ۔
و لو بسط الله الرزق لعباده لبغوا في الارض و لكن ينزل بقدر ما يشاء انه بعباده خبير بصير
And if Allah had extended [excessively] provision for His servants, they would have committed tyranny throughout the earth. But He sends [it] down in an amount which He wills. Indeed He is, of His servants, Acquainted and Seeing.
Agar Allah Taalaa apnay ( sab ) bandon ki rozi faraakh ker deta to woh zamin mein fasad barpa ker detay lekin woh andazay kay sath jo kuch chahata hai nazil farmata hai woh apnay bandon say poora khabardar hai aur khoob dekhney wala hai.
اور اگر اللہ اپنے تمام بندوں کے لیے رزق کو کھلے طور پر پھیلا دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگتے ، مگر وہ ایک خاص اندازے سے جتنا چاہتا ہے ( رزق ) اتارتا ہے ۔ یقینا وہ اپنے بندوں سے پوری طرح باخبر ، ان پر نظر رکھنے والا ہے ۔
اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کا رزق وسیع کردیتا تو ضرور زمین میں فساد پھیلاتے ( ف۷۹ ) لیکن وہ اندازہ سے اتارتا ہے جتنا چاہے ، بیشک وہ بندوں سے خبردار ہے ( ف۸۰ ) انہیں دیکھتا ہے ،
اگر اللہ اپنے بندوں کو کھلا رزق دے دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کر دیتے ، مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے نازل کرتا ہے ، یقینا وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور ان پر نگاہ رکھتا ہے 48 ۔
اور اگر اللہ اپنے تمام بندوں کے لئے روزی کشادہ فرما دے تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرنے لگیں لیکن وہ ( ضروریات کے ) اندازے کے ساتھ جتنی چاہتا ہے اتارتا ہے ، بیشک وہ اپنے بندوں ( کی ضرورتوں ) سے خبردار ہے خوب دیکھنے والا ہے
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :48 جس سلسلہ کلام میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اسے نظر میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ اس بنیادی سبب کی طرف اشارہ فرما رہا ہے جو کفار مکہ کی سرکشی میں کام کر رہا تھا ۔ اگرچہ روم و ایران کے مقابلہ میں ان کی کوئی ہستی نہ تھی اور گرد و پیش کی قوموں میں وہ ایک پس ماندہ قوم کے ایک تجارت پیشہ قبیلے ، یا بالفاظ دیگر ، بنجاروں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے ، مگر اپنی اس ذرا سی دنیا میں ان کو دوسرے عربوں کی بہ نسبت جو خوشحالی اور بڑائی نصیب تھی اس نے ان کو اتنا مغرور و متکبر بنا دیا تھا کہ وہ اللہ کے نبی کی بات پر کان دھرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے ، اور ان کے سرداران قبائل اس کو اپنی کسر شان سمجھتے تھے کہ محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے پیشوا ہوں اور وہ ان کی پیروی کریں ۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کہیں ہم ان چھوٹے ظرف کے لوگوں پر واقعی رزق کے دروازے کھول دیتے تو یہ بالکل ہی پھٹ پڑتے ، مگر ہم نے انہیں دیکھ کر ہی رکھا ہے ، اور ناپ تول کر ہم انہیں بس اتنا ہی دے رہے ہیں جو ان کو آپے سے باہر نہ ہونے دے ۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ آیت دوسرے الفاظ میں وہی مضمون ادا کر رہی ہے جو سورہ توبہ ، آیت 68 ۔ 70 ، الکہف ، آیات 32 ۔ 42 ۔ القصص ، آیات 75 ۔ 82 ۔ الروم ، آیت 9 ۔ سبا ، آیت 34 ۔ 36 ۔ اور المومن آیات 82 ۔ 85 میں بیان ہوا ہے ۔