Surah

Information

Surah # 43 | Verses: 89 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 63 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 54, from Madina
اِنَّ الۡمُجۡرِمِيۡنَ فِىۡ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ ۚ ۖ‏ ﴿74﴾
بیشک گنہگار لوگ عذاب دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے ۔
ان المجرمين في عذاب جهنم خلدون
Indeed, the criminals will be in the punishment of Hell, abiding eternally.
Be-shak gunehgar log azab-e-dozakh mein hamesha rahen gay.
البتہ جو لوگ مجرم تھے وہ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے ۔
بیشک مجرم ( ف۱۱۸ ) جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ،
رہے مجرمین ، تو وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے ،
بیشک مجرم لوگ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
دوزخ اور دوزخیوں کی درگت: اوپر چونکہ نیک لوگوں کا حال بیان ہوا تھا اس لئے یہاں بدبختوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ گنہگار جہنم کے عذابوں میں ہمیشہ رہیں گے ایک ساعت بھی انہیں ان عذابوں میں تخفیف نہ ہو گی اور اس میں وہ ناامید محض ہو کر پڑے رہیں گے ہر بھلائی سے وہ مایوس ہو جائیں گے ہم ظلم کرنے والے نہیں بلکہ انہوں نے خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنی جان پر آپ ہی ظلم کیا ہم نے رسول بھیجے کتابیں نازل فرمائیں حجت قائم کر دی لیکن یہ اپنی سرکشی سے عصیان سے طغیان سے باز نہ آئے اس پر یہ بدلہ پایا اس میں اللہ کا کوئی ظلم نہیں اور نہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے یہ جہنمی مالک کو یعنی داروغہ جہنم کو پکاریں گے ، صحیح بخاری میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ موت کی آرزو کریں گے تاکہ عذاب سے چھوٹ جائیں لیکن اللہ کا یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ ( وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ 36؀ۚ ) 35- فاطر:36 ) یعنی نہ تو انہیں موت آئے گی اور نہ عذاب کی تخفیف ہو گی اور فرمان باری ہے آیت ( وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى 11۝ۙ ) 87- الأعلى:11 ) یعنی وہ بد بخت اس نصیحت سے علیحدہ ہو جائے گا جو بڑی سخت آگ میں پڑے گا پھر وہاں نہ مرے گا اور نہ جئے گا ۔ پس جب یہ داروغہ جہنم سے نہایت لجاجت سے کہیں گے کہ آپ ہماری موت کی دعا اللہ سے کیجئے تو وہ جواب دے گا کہ تم اسی میں پڑے رہنے والے ہو مرو گے نہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں مکث ایک ہزار سال ہے ۔ یعنی نہ مرو گے نہ چھٹکارا پاؤ گے نہ بھاگ سکو گے پھر ان کی سیاہ کاری کا بیان ہو رہا ہے کہ جب ہم نے ان کے سامنے حق کو پیش کر دیا واضح کر دیا تو انہوں نے اسے ماننا تو ایک طرف اس سے نفرت کی ۔ ان کی طبیعت ہی اس طرف مائل نہ ہوئی حق اور حق والوں سے نفرت کرتے رہے اس سے رکتے رہے ہاں ناحق کی طرف مائل رہے ناحق والوں سے ان کی خوب بنتی رہی ۔ پس تم اپنے نفس کو یہی ملامت کرو اور اپنے ہی اوپر افسوس کرو لیکن آج کا افسوس بھی بےفائدہ ہے پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے بدترین مکر اور زبردست داؤ کھیلنا چاہا تو ہم نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا حضرت مجاہد کی یہی تفسیر ہے اور اس کی شہادت اس آیت میں ہے ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 50؀ ) 27- النمل:50 ) یعنی انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح مکر کیا کہ انہیں پتہ بھی نہ چلا ۔ مشرکین حق کو ٹالنے کے لئے طرح طرح کی حیلہ سازی کرتے رہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں دھوکے میں ہی رکھا اور ان کا وبال جب تک ان کے سروں پر نہ آگیا اور ان کی آنکھیں نہ کھلیں اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتیں اور خفیہ سرگوشیاں سن نہیں رہے ؟ ان کا گمان بالکل غلط ہے ہم تو انکی سرشت تک سے واقف ہیں بلکہ ہمارے مقرر کردہ فرشتے بھی ان کے پاس بلکہ ان کے ساتھ ہں جو نہ صرف دیکھ ہی رہے ہیں بلکہ لکھ بھی رہے ہیں ۔