Surah

Information

Surah # 49 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 106 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلَوۡ اَنَّهُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰى تَخۡرُجَ اِلَيۡهِمۡ لَـكَانَ خَيۡرًا لَّهُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿5﴾
اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا اور اللہ غفور و رحیم ہے ۔
و لو انهم صبروا حتى تخرج اليهم لكان خيرا لهم و الله غفور رحيم
And if they had been patient until you [could] come out to them, it would have been better for them. But Allah is Forgiving and Merciful.
Agar yeh log yahan tak sabar kertay kay aap khud say nikal ker inn kay pass ajatay to yehi inn kay liye behtar hota, aur Allah ghafoor-o-raheem hai.
اور اگر یہ لوگ اس وقت تک صبر کرتے جب تک تم خود باہر نکل کر ان کے پاس آجاتے ، تو ان کے لیے بہتر ہوا اور اللہ بہت بخشنے والا ، بہت مہربان ہے ۔
اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے ( ف۷ ) تو یہ ان کے لیے بہتر تھا ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ( ف۸ )
اگر وہ تمہارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو ان کے لیے بہتر تھا6 ، اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے 7 ۔
اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا ، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :6 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جن لوگوں نے آپ کی صحبت میں رہ کر اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت پائی تھی وہ تو آپ کے اوقات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے ۔ ان کو پورا احساس تھا کہ آپ اللہ کے کام میں کس قدر مصروف زندگی بسر فرماتے ہیں ، اور ان تھکا دینے والی مصروفیتوں کے دوران میں لازماً کچھ وقت آپ کے آرام کے لیے اور کچھ وقت آپ کی اہم مشغولیتوں کے لیے اور کچھ وقت اپنی خانگی زندگی کے معاملات کی طرف توجہ کرنے کے لیے بھی ہونا چاہیے ۔ اس لیے وہ آپ سے ملاقات کے لیے اسی وقت حاضر ہوتے تھے جب آپ باہر تشریف فرما ہوں ، اور اگر کبھی وہ آپ کو مجلس میں موجود نہ پاتے تو بیٹھ کر آپ کے برآمد ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کسی شدید ضرورت کے بغیر آپ کو باہر تشریف لانے کی زحمت نہ دیتے تھے ۔ لیکن عرب کے اس ماحول میں ، جہاں عام طور پر لوگوں کو کسی شائستگی کی تربیت نہ ملی تھی ، بارہا ایسے اَن گھڑ لوگ بھی آپ سے ملاقات کے لیے آ جاتے تھے جن کا تصور یہ تھا کہ دعوت الیٰ اللہ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے کو کسی وقت بھی آرام لینے کا حق نہیں ہے ، اور انہیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آدھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے ۔ اس قماش کے لوگوں میں عموماً اور اطراف عرب سے آنے والوں میں خصوصاً بعض ایسے ناشائستہ لوگ بھی ہوتے تھے جو آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو کسی خادم سے اندر اطلاع کرانے کی زحمت بھی نہ اٹھاتے تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے پھرتے تھے ۔ اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں صحابہ کرام نے روایت کیے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی ان حرکات سے تکلیف ہوتی تھی مگر اپنے طبعی حلم کی وجہ سے آپ اسے برداشت کیے جا رہے تھے ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مداخلت فرمائی اور اس ناشائستہ طرز عمل پر ملامت کرتے ہوئے لوگوں کو یہ ہدایت دی کہ جب وہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں اور آپ کو موجود نہ پائیں تو پکار پکار کر آپ کو بلانے کے بجائے صبر کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ خود ان سے ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :7 یعنی اب تک جو کچھ ہوا سو ہوا ، آئندہ اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پچھلی غلطیوں سے در گزر فرمائے گا اور اپنے رحم و کرم کی بنا پر ان لوگوں سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا جو اس کے رسول کو اس طرح اذیت دیتے رہے ہیں ۔