Surah

Information

Surah # 51 | Verses: 60 | Ruku: 3 | Sajdah: 0 | Chronological # 67 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَتَرَكۡنَا فِيۡهَاۤ اٰيَةً لِّـلَّذِيۡنَ يَخَافُوۡنَ الۡعَذَابَ الۡاَلِيۡمَؕ‏ ﴿37﴾
اور ہم نے ان کے لئے جو دردناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک ( کامل ) علامت چھوڑی ۔
و تركنا فيها اية للذين يخافون العذاب الاليم
And We left therein a sign for those who fear the painful punishment.
Aur wahan hum ney unkay liye jo dardnaak azab ka darr rakhtey hain aik ( kamil ) alamat chori.
اور ہم نے اس بستی میں ان لوگوں کے لیے ( عبرت کی ) ایک نشانی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں ۔
اور ہم نے اس میں ( ف۳۷ ) نشانی باقی رکھی ان کے لیے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں ( ف۳۸ )
اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی ان لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں35 ۔
اور ہم نے اُس ( بستی ) میں اُن لوگوں کے لئے ( عبرت کی ) ایک نشانی باقی رکھی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :35 اس نشانی سے مراد بحیرۂ مردار ( Dead Sea ) ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے ۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرۂ مردار کا پانی پھیل گیا تھا ، کیونکہ اس بحیرے کا وہ حصہ جو للِّسان نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے ، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے اور قدیم بحیرۂ مردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں ۔ اس سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جنوب کا حصہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا ، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا ۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے ، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کا زمانہ ہے ۔ 1965 میں آثار قدیمہ کی تلاش کرنے والی ایک امریکی جماعت کو للسان پر ایک بہت بڑا قبرستان ملا ہے جس میں 20 ہزار سے زیادہ قبریں ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قریب میں کوئی بڑا شہر ضرور آباد ہو گا ۔ مگر کسی ایسے شہر کے آثار آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں جس سے متصل اتنا بڑا قبرستان بن سکتا ہو ۔ اس سے بھی یہ شبہ تقویت پاتا ہے کہ جس شہر کا یہ قبرستان تھا وہ بحیرے میں غرق ہو چکا ہے ۔ بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک ، رال ، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الشعراء ، حاشیہ 114 ) ۔