Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَكَذَّبُوۡا بِـاٰيٰتِنَآ اُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿39﴾
اور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں ، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔
و الذين كفروا و كذبوا بايتنا اولىك اصحب النار هم فيها خلدون
And those who disbelieve and deny Our signs - those will be companions of the Fire; they will abide therein eternally."
Aur jo inkar keren aur meri aayaton ko jhutlayen woh jahannumi hain aur hamesha ussi mein rahey gay.
اور جو لوگ کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
اور وہ جو کفر کریں گے اور میری آیتیں جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہیں ، ان کو ہمیشہ اس میں رہنا ۔
اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے 54 ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ” 55 ؏٤
اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے تو وہی دوزخی ہوں گی ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :54 آیات جمع ہے آیت کی ۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے ۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے ۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے ۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے ، کیونکہ مظاہرِ قدرت میں سے ہر چیز اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستُور ہے ۔ کہیں ان معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء علیہم السّلام لے کر آتے تھے ، کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں ۔ کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے ، کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ، بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے ، اس کے محض مضامین ہی میں نہیں ، اس کے الفاظ اور اندازِ بیان اور طرزِ عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مُصنّف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسُوس ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں”آیت“ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :55 یہ نسلِ انسانی کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو تیسرے رکوع میں اللہ کے ”عہد“سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ انسان کا کام خود راستہ تجویز کرنا نہیں ہے ، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامُور ہے کہ اس راستے کی پیروی کرے جو اس کا ربّ اس کے لیے تجویز کرے ۔ اور اس راستے کے معلوم ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں : یا تو کسی انسان کے پاس براہِ راست اللہ کی طرف سے وحی آئے ، یا پھر وہ اس انسان کا اتباع کرے جس کے پاس وحی آئی ہو ۔ کوئی تیسری صُورت یہ معلوم ہونے کی نہیں ہے کہ ربّ کی رضا کس راہ میں ہے ۔ ان دو صُورتوں کے ماسوا ہر صُورت غلط ہے ، بلکہ غلط ہی نہیں ، سراسر بغاوت بھی ہے ، جس کی سزا جہنّم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ قرآن مجید میں آدم کی پیدائش اور نَوعِ انسانی کی ابتدا کا یہ قصّہ سات مقامات پر آیا ہے ، جن میں سے پہلا مقام یہ ہے اور باقی مقامات حسبِ ذیل ہیں: الاعراف ، رکوع ۲ ۔ بنی اسرائیل ، رکوع ۷ ۔ الکہف ، رکوع ۷ ، طٰہٰ ، رکوع ۷ ۔ صٓ ، رکوع ۵ ۔ بائیبل کی کتاب ِ پیدائش ، باب اوّل ، دوم و سوم میں بھی یہ قصّہ بیان ہوا ہے ۔ لیکن دونوں کا مقابلہ کرنے سے ہر صاحب نظر انسان محسُوس کر سکتا ہے کہ دونوں کتابوں میں کیا فرق ہے ۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت اللہ اور فرشتوں کی گفتگو کا ذکر تلمود میں بھی آیا ہے ، مگر وہ بھی اس معنوی روح سے خالی ہے جو قرآن کے بیان کردہ قصہ میں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں لطیفہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے اللہ سے پوچھا ، انسانوں کو آخر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ۔ تاکہ ان میں نیک لوگ پیدا ہوں بد لوگوں کا ذکر اللہ نے نہیں کیا ورنہ فرشتے انسان کی تخلیق کی منظوری نہ دیتے ۔