Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَلَـكُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَكَ اَزۡوَاجُكُمۡ اِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَـكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡنَ‌ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصِيۡنَ بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ‌ ؕ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّكُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ كَانَ لَـكُمۡ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ‌ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ تُوۡصُوۡنَ بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ‌ ؕ وَاِنۡ كَانَ رَجُلٌ يُّوۡرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امۡرَاَةٌ وَّلَهٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا السُّدُسُ‌ ۚ فَاِنۡ كَانُوۡۤا اَكۡثَرَ مِنۡ ذٰ لِكَ فَهُمۡ شُرَكَآءُ فِى الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصٰى بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ ۙ غَيۡرَ مُضَآرٍّ‌ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللّٰهِ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَلِيۡمٌ ؕ‏ ﴿12﴾
تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھوں آدھ تمہارا ہے اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے ۔ اس وصیّت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کے بعد ۔ اور جو ( ترکہ ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لئے چوتھائی ہے ، اگر تمہاری اولاد نہ ہو ، اور اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصّہ ملے گا ، اس وصیّت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد ۔ اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو ، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں ، اس وصیّت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مُقّرر کیا ہوا اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اللہ تعالٰی دانا ہے بُردبار ۔
و لكم نصف ما ترك ازواجكم ان لم يكن لهن ولد فان كان لهن ولد فلكم الربع مما تركن من بعد وصية يوصين بها او دين و لهن الربع مما تركتم ان لم يكن لكم ولد فان كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم من بعد وصية توصون بها او دين و ان كان رجل يورث كللة او امراة و له اخ او اخت فلكل واحد منهما السدس فان كانوا اكثر من ذلك فهم شركاء في الثلث من بعد وصية يوصى بها او دين غير مضار وصية من الله و الله عليم حليم
And for you is half of what your wives leave if they have no child. But if they have a child, for you is one fourth of what they leave, after any bequest they [may have] made or debt. And for the wives is one fourth if you leave no child. But if you leave a child, then for them is an eighth of what you leave, after any bequest you [may have] made or debt. And if a man or woman leaves neither ascendants nor descendants but has a brother or a sister, then for each one of them is a sixth. But if they are more than two, they share a third, after any bequest which was made or debt, as long as there is no detriment [caused]. [This is] an ordinance from Allah , and Allah is Knowing and Forbearing.
Tumhari biwiyan jo kuch chor maren aur unn ki aulad na ho to aadhon aadh tumhara hai aur agar unn ki aulad ho to unn kay choray huye maal say tumharay liye chothaee hissa hai. Uss wasiyat ki adaayegi kay baad jo woh ker gaee hon ya qarz kay baad. Aur jo ( tarka ) tum chor jao uss mein unn kay liye aik chothaee hai agar tumhari aulad na ho aur agar tumhari aulad ho to phir unhen tumharay tarkay ka aathwan hissa milay ga uss wasiyat kay baad jo tum ker gaye ho aur qarz ki adaayegi kay baad. Aur jin ki meerass li jati hai woh mard ya aurat kalala ho yani uss ka baap beta na ho aur uss ka aik bhai ya aik behan ho to inn dono mein say her aik ka chatha hissa hai aur agar iss say ziyada hon to aik tehaee mein sab shareek hain uss wasiyat kay baad jo ki jaye aur qarz kay baad jabkay auron ka nuksan na kiya gaya ho yeh muqarrar kiya hua Allah Taalaa ki taraf say hai aur Allah Taalaa daana hai burdbaar.
اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں ، اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے ، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد ( زندہ ) نہ ہو ۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو ، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمہیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا ۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی ان ( بیویوں ) کا ہے ، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد ( زندہ ) نہ ہو ۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو ، اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا ۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے ، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں ، نہ اولاد ، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے ۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے ، ( مگر ) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد ، بشرطیکہ ( وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے ) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو ۔ ( ١٣ ) یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے ، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا ، بردبار ہے ۔
اور تمہاری بیبیاں جو چھوڑ جائیں اس میں سے تمہیں آدھا ہے اگر ان کی اولاد نہ ہو ، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہیں چوتھائی ہے جو وصیت وہ کر گئیں اور دَین نکال کر اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے ( ف۳٦ ) اگر تمہارے اولاد نہ ہو پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں ( ف۳۷ ) جو وصیت تم کر جاؤ اور دین نکال کر ، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ بٹنا ہو جس نے ماں باپ اولاد کچھ نہ چھوڑے اور ماں کی طرف سے اس کا بھائی یا بہن ہے تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا پھر اگر وہ بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہیں ( ف۳۸ ) میت کی وصیت اور دین نکال کر جس میں اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو ( ف۳۹ ) یہ اللہ کا ارشاد ہے اور اللہ علم والا حلم والا ہے ،
اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمہارا ہے جبکہ وصیّت جو انہوں نے کی ہو پوری کر دی جائے ، اور قرض جو انہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے ۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ، ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصّہ آٹھواں ہوگا ، 22 بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے ۔ اور اگر وہ مرد یا عورت ﴿جس کی میراث تقسیم طلب ہے﴾ بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں ، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا ، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے ، 23 جبکہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے ، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے ، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۔ 24 یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے ۔ 25
اور تمہارے لئے اس ( مال ) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو ، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے ( یہ بھی ) اس وصیت ( کے پورا کرنے ) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض ( کی ادائیگی ) کے بعد ، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے ( مال ) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو ، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس ( مال ) کی نسبت کی ہوئی وصیت ( پوری کرنے ) یا ( تمہارے ) قرض کی ادائیگی کے بعد ، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا ( ماں کی طرف سے ) ایک بھائی یا ایک بہن ہو ( یعنی اخیافی بھائی یا بہن ) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے ، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے ( یہ تقسیم بھی ) اس وصیت کے بعد ( ہو گی ) جو ( وارثوں کو ) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض ( کی ادائیگی ) کے بعد ، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے ، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :22 یعنی خواہ ایک بیوی ہو یا کئی بیویاں ہوں ، اولاد ہونے کی صورت میں وہ 1/8 کی اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں 1/4 کی حصہ دار ہوں گی اور یہ 1/4 یا 1/8 سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :23 باقی 5/6 یا 2/3 جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی اور وارث موجود ہو تو اس کو حصہ ملے گا ، ورنہ اس پوری باقی ماندہ ملکیت کے متعلق اس شخص کو وصیت کرنے کا حق ہو گا ۔ اس آیت کے متعلق مفسرین کا اجماع ہے کہ اس میں بھائی اور بہنوں سے مراد اخیافی بھائی اور بہن ہیں یعنی جو میت کے ساتھ صرف ماں کی طرف سے رشتہ رکھتے ہوں اور باپ ان کا دوسرا ہو ۔ رہے سگے بھائی بہن ، اور وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے میت کے ساتھ رشتہ رکھتے ہوں ، تو ان کا حکم اسی سورہ کے آخر میں ارشاد ہوا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :24 وصیت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیت کی جائے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں ۔ اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حقداروں کو محروم کرنے کے لیے آدمی خواہ مخواہ اپنے اوپر ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو ، یا اور کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصود یہ ہو کہ حقدار میراث سے محروم ہو جائیں ۔ اس قسم کے ضرار کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام اہل جنت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کر جاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے ۔ یہ ضرار اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے ، مگر خاص طور پر کلالہ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جس شخص کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں اس میں عموماً یہ میلان پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی جائداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر جائے اور نسبتاً دور کے رشتہ داروں کو حصہ پانے سے محروم کر دے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :25 یہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے: ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا ۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے ۔ اور اللہ کی صفت حلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں ۔
وراثت کی مزید تفصیلات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مرد و تمہاری عورتیں جو چھوڑ کر مریں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے آدھوں آدھ حصہ تمہارا ہے اور اگر ان کے بال بچے ہوں تو تمہیں چوتھائی ملے گا ، وصیت اور قرض کے بعد ۔ ترتیب اس طرح ہے پہلے قرض ادا کیا جائے پھر وصیت پوری کی جائے پھر ورثہ تقسیم ہو ، یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علماء امت کا اجماع ہے ، پوتے بھی اس مسئلہ میں حکم میں بیٹیوں کی ہی طرح ہیں بلکہ ان کی اولاد در اولاد کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کی موجودگی میں خاوند کو چوتھائی ملے گا ۔ پھر عورتوں کو حصہ بتایا کہ انہیں یا چوتھائی ملے گا یا آٹھواں حصہ چوتھائی تو اس حالت میں کہ مرنے والے خاوند کی اولاد نہ ہو ، اور آٹھواں حصہ اس حالت میں کہ اولاد ہو ، اس چوتھائی یا آٹھویں حصے میں مرنے والے کی سب بیویاں شامل ہیں چار ہوں تو ان میں یہ حصہ برابر برابر تقسیم ہو جائے گا تین یا دو ہوں تب بھی اور اگر ایک ہو تو اسی کا یہ حصہ ہے آیت ( من بعد وصیتہ ) کی تفسیر اس سے پہلی آیت میں گزر چکی ہے ۔ ( کلالہ ) مشتق ہے اکلیل سے اکلیل کہتے ہیں اس تاج وغیرہ کو جو سر کو ہر طرف سے گھیر لے ، یہاں مراد یہ ہے کہ اس کے وارث ارد گرد حاشیہ کے لوگ ہیں اصل اور فرع یعنی جڑیا شاخ نہیں ، صرف ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کلالہ کا معنی پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں اپنی رائے سے جواب دیتا ہوں اگر ٹھیک ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری الذمہ ہیں ، کلالہ وہ ہے جس کا نہ لڑکا ہو نہ باپ ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی اس سے موافقت کی اور فرمایا مجھے ابو بکر کی رائے سے خلاف کرتے ہوئے شرم آتی ہے ( ابن جریر وغیرہ ) ابن عباس فرماتے ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری زمانہ پانے والا میں ہوں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے بات وہی ہے جو میں نے کہی ٹھیک اور درست یہی ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا نہ ولد ہو والد ، حضرت علی ، ابن مسعود ، ابن عباس ، زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین ، شعبی ، نخعی ، حسن ، قتادہ ، جابر بن زید ، حکم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں ، اہل مدینہ اہل کوفہ اہل بصرہ کا بھی یہی قول ہے ساتوں فقہاء چاروں امام اور جمہور سلف و خلف بلکہ تمام یہی فرماتے ہیں ، بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے ، ابن لباب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور ممکن ہے کہ راوی نے مراد سمجھی ہی نہ ہو پھر فرمایا کہ اس کا بھائی یا بہن ہو یعنی ماں زاد ، جیسے کہ سعد بن وقاص وغیرہ بعض سلف کی قرأت ہے ، حضرت صدیق وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے اگر زیادہ ہوں تو ایک ثلث میں سب شریک ہیں ، ماں زاد بھائی باقی وارثوں سے کئی وجہ سے مختلف ہیں ، ایک تو یہ کہ یہ باوجود اپنے ورثے کے دلانے والے کے بھی وارث ہوتے ہیں مثلاً ماں دوسرے یہ کہ ان کے مرد و عورت یعنی بہن بھائی میراث میں برابر ہیں تیسرے یہ کہ یہ اسی وقت وارث ہوتے ہیں جبکہ میت کلالہ ہو پس باپ دادا کی یعنی پوتے کی موجودگی میں یہ وارث نہیں ہوتے ، چوتھے یہ کہ انہیں ثلث سے زیادہ نہیں ملتا تو گویہ کتنے ہی ہوں مرد ہوں یا عورت ، حضرت عمر کا فیصلہ ہے کہ ماں زاد بہن بھائی کا ورثہ آپس میں اس طرح بٹے گا کہ مرد کے لئے دوہرا اور عورت کے لئے اکہرا ، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر ایسا فیصلہ نہیں کر سکتے تاوقتیکہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہو ، آیت میں اتنا تو صاف ہے کہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ثلث میں شریک ہیں ، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر میت کے وارثوں میں خاوند ہو اور ماں ہو یا دادی ہو اور دو ماں زاد بھائی ہوں اور ایک یا ایک سے زیادہ باپ کی طرف سے بھائی ہوں تو جمہور تو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کو آدھا ملے گا اور ماں یا دادی کو چھٹا حصہ ملے گا اور ماں زاد بھائی کو تہائی ملے گا اور اسی میں سگے بھائی بھی شامل ہوں گے قدر مشترک کے طور پر جو ماں زاد بھائی ہے ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایک ایسی ہی صورت پیش آئی تھی تو آپ نے خاوند کو آدھا دلوایا اور ثلث ماں زاد بھائیوں کو دلوایا تو سگے بھائیوں نے بھی اپنے تئیں پیش کیا آپ نے فرمایا تم ان کے ساتھ شریک ہو ، حضرت عثمان سے بھی اسی طرح شریک کر دینا مروی ہے ، اور دو روایتوں میں سے ایک روایت ایسی ہے ابن مسعود اور زید بن ثابت اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی مروی ہے ، حضرت سعید بن مسیب ، قاضی شریح ، مسروق ، طاؤس ، محمد بن سیرین ، ابراہیم نخعی ، عمر بن عبدالعزیز ، ثوری اور شریک رحہم اللہ کا قول بھی یہی ہے ، امام مالک اور امام شافعی اور امام اسحق بن راھویہ بھی اسی طرف گئے ہیں ، ہاں حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں شرکت کے قائل نہ تھے بلکہ آپ اولاد ام کو اس حالت میں ثلث دلواتے تھے اور ایک ماں باپ کی اولاد کو کچھ نہیں دلاتے تھے اس لئے کہ یہ عصبہ ہیں اور عصبہ اس وقت پاتے ہیں جب ذوی الفرض سے بچ جائے ، بلکہ وکیع بن جراح کہتے ہیں حضرت علی سے اس کے خلاف مروی ہی نہیں ، حضرت ابی بن کعب حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قول بھی یہی ہے ، ابن عباس سے بھی مشہور یہی ہے ، شعبی ، ابن ابی لیلی ، ابو حنیفہ ، ابو یوسف ، محمد بن حسن ، حسن بن زیادہ ، زفر بن ہذیل ، امام احمد ، یحییٰ بن آدم ، نعیم بن حماد ، ابو ثور ، داؤد ظاہری بھی اسی طرف گئے ہیں ابو الحسن بن لبان فرضی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ، ملاحظہ ہو ان کی کتاب الایجاز پھر فرمایا یہ وصیت کے جاری کرنے کے بعد ہے ، وصیت ایسی ہو جس میں خلاف عدل نہ ہو کسی کو ضرر اور نقصان نہ پہنچایا گیا ہو نہ کسی پر جبر و ظلم کیا گیا ہو ، کسی وارث کا نہ ورثہ مارا گیا ہو نہ کم و بیش کیا گیا ہو ، اس کے خلاف وصیت کرنے والا اور ایسی خلاف شرع وصیت میں کوشش کرنے والا اللہ کے حکم اور اس کی شریعت میں اس کے خلاف کرنے والا اور اس سے لڑنے والا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وصیت میں کسی کو ضرر و نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے ( ابن ابی حاتم ) نسائی میں حضرت ابن عباس کا قول بھی اسی طرح مروی ہے بعض روایتوں میں حضرت ابن عباس سے اس فرمان کے بعد آیت کے اس ٹکڑے کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے ، امام ابن جریر کے قول کی مطابق ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں موقوف قول ہے ، ائمہ کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ وارث کے لئے جو اقرار میت کر جائے آیا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ بعض کہتے ہیں صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اس میں تہمت لگنے کی گنجائش ہے ، حدیث شریف میں بہ سند صحیح آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ، مالک احمد بن حنبل ابو حنیفہ کا قول یہی ہے ، شافعی کا بھی پہلا قول یہی تھا لیکن آخری قول یہ ہے کہ اقرار کرنا صحیح مانا جائے گا طاؤس حسن عمر بن عبدالعزیز کا قول بھی یہی ہے ، حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں اسی کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کی دلیل ایک یہ روایت بھی ہے کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی کہ فزاریہ نے جس چیز پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہوں وہ نہ کھولے جائیں ، حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے پھر فرمایا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں بہ سبب وارثوں کے ساتھ بدگمانی کے اسکا یہ اقرار جائز نہیں ، لیکن میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے بدگمانی سے بچو بدگمانی تو سب سے زیادہ جھوٹ ہے ، قرآن کریم میں فرمان اللہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جس کی جو امانت ہو وہ پہنچا دو ، اس وارث اور غیر وارث کی کوئی تخصیص نہیں ، یہ یاد رہے کہ یہ اختلاف اس وقت ہے جب اقرار فی الواقع صحیح ہو اور نفس الامر کے مطابق ہو اور اگر صرف حیلہ سازی ہو اور بعض وارثوں کو زیادہ دینے اور بعض کو کم پہنچانے کے لئے ایک بہانہ بنا لیا ہو تو بالاجماع اسے پورا کرنا حرام ہے اور اس آیت کے صاف الفاظ بھی اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں ( اقرار فی الواقع صحیح ہونے کی صورت میں اس کا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ دوسری جماعت کا قول ہے اور جیسا کہ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب ہے ۔ مترجم ) پھر فرمایا یہ اللہ عزوجل احکام ہیں اللہ عظیم و اعلیٰ علم و حلم والا ہے ۔