Surah

Information

Surah # 57 | Verses: 29 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 94 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَاٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِهٖ يُؤۡتِكُمۡ كِفۡلَيۡنِ مِنۡ رَّحۡمَتِهٖ وَيَجۡعَلْ لَّـكُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِهٖ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۙۚ‏ ﴿28﴾
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں نور دے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا ، اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
يايها الذين امنوا اتقوا الله و امنوا برسوله يؤتكم كفلين من رحمته و يجعل لكم نورا تمشون به و يغفر لكم و الله غفور رحيم
O you who have believed, fear Allah and believe in His Messenger; He will [then] give you a double portion of His mercy and make for you a light by which you will walk and forgive you; and Allah is Forgiving and Merciful.
Aey woh logon jo eman laye ho ALLAH say dartay raha kero aur uss kay rasool per eman lao ALLAH tumhen apni rehmat ka dohra hissa dey ga aur tumhen noor dey ga jiss ki roshni mein tum chalo gey phiro gey aur tumharay gunah bhi moaaf farma dey ga ALLAH bakshnay wala meharbaan hai.
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصے عطا فرمائے ، ( ٢٦ ) اور تمہارے لیے وہ نور پیدا کرے جس کے ذریعے تم چل سکو ، ( ٢٧ ) اور تمہاری بخشش فرمادے ۔ اور اللہ بہت بخشنے والا ، بہت مہربان ہے ۔
اے ایمان والو! ( ف۹٤ ) اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول ( ف۹۵ ) پر ایمان لاؤ وہ اپنی رحمت کے دو حصے تمہیں عطا فرمائے گا ( ف۹٦ ) اور تمہارے لیے نور کردے گا ( ف۹۷ ) جس میں چلو اور تمہیں بخش دے گا ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول ( محمد صلی علیہ و سلم ) پر ایمان لاؤ 55 ، اللہ تمھیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرما ئے گا اور تمھیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے56 ، اور تمہارے قصور معاف کر دے 57 گا ، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے ۔
اے ایمان والو! اللہ کا تقوٰی اختیار کرو اور اُس کے رسولِ ( مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم ( دنیا اور آخرت میں ) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا ، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے
سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :55 اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنْوْا ، کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ ، تمہیں اس پر دہرا اجر ملے گا ، ایک اجر ایمان بر عیسیٰ کا اور دوسرا اجر ایمان بر محمد کا ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں سے ہے ۔ ان سے ارشاد ہو رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جاؤ ، بلکہ صدق دل سے ایمان لاؤ اور ایمان لانے کا حق ادا کرو ۔ اس پر تمہیں دہرا اجر ملے گا ۔ ایک اجر کفر سے اسلام کی طرف آنے کا ، اور دوسرا اجر اسلام میں اخلاص اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا ۔ پہلی تفسیر کی تائید سورہ قصص کی آیات 52 تا 54 کرتی ہیں اور مزید برآں اس کی تائید حضرت ابو موسیٰ اشعری کی یہ روایت بھی کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تین آدمی ہیں جن کے لیے دہرا اجر ہے ۔ ان میں سے ایک ہے رجُل مِّن اھل الکتاب اٰمن بنبیہ و اٰمن بمحمد ، اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے سابق نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر بھی ایمان لے آیا ( بخاری و مسلم ) ۔ دوسری تفسیر کی تائید سورہ سبا کی آیت 37 کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین صالحین کے لیے دو گنا اجر ہے ۔ دلیل کے اعتبار سے دونوں تفسیروں کا وزن مساوی ہے ۔ لیکن آگے کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تفسیر ہی اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ، بلکہ در حقیقت اس سورت کا پورا مضمون از اول تا آخر اسی تفسیر کی تائید کرتا ہے ۔ شروع سے اس سورت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کر کے داخل اسلام ہوئے تھے ، اور پوری سورت میں انہی کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ محض زبان کے مومن نہ بنیں بلکہ اخلاص کے ساتھ سچے دل سے ایمان لائیں ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :56 یعنی دنیا میں علم و بصیرت کا وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم کو قدم قدم پر صاف نظر آتا رہے گا کہ زندگی کے مختلف معاملات میں جاہلیت کی ٹیڑھی راہوں کے درمیان اسلام کی سیدھی راہ کونسی ہے ۔ اور آخرت میں وہ نور بخشے گا جس کا ذکر آیت 12 میں گزر چکا ہے ۔ سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :57 یعنی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی مخلصانہ کوشش کے باوجود بشری کمزوریوں کی بنا پر جو قصور بھی تم سے سرزد ہو جائیں ان سے درگزر فرمائے گا ، اور وہ قصور بھی معاف کرے گا جو ایمان لانے سے پہلے جاہلیت کی حالت میں تم سے سرزد ہوئے تھے ۔
مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس سے پہلے کی آیت میں بیان ہو چکا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جن مومنوں کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد اہل کتاب کے مومن ہیں اور انہیں دوہرا اجر ملے گا جیسے کہ سورۃ قصص کی آیت میں ہے اور جیسے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ تین شخصوں کو اللہ تعالیٰ دوہرا اجر دے گا ایک وہ اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لایا پھر مجھ پر بھی ایمان لایا اسے دوہرا اجر ہے اور وہ غلام جو اپنے آقا کی تابعداری کرے اور اللہ کا حق بھی ادا کرے اسے بھی دو دو اجر ہیں اور وہ شخض جو اپنی لونڈی کو ادب سکھائے اور بہت اچھا ادب سکھائے یعنی شرعی ادب پھر اسے آزاد کر دے اور نکاح کر دے وہ بھی دوہرے اجر کا مستحق ہے ( بخاری و مسلم ) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب اہل کتاب اس دوہرے اجر پر فخر کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اس امت کے حق میں نازل فرمائی ۔ پس انہیں دوہرے اجر کے بعد نور ہدایت دینے کا بھی وعدہ کیا اور مغفرت کا بھی پس نور اور مغفرت انہیں زیادہ ملی ( ابن جریر ) اسی مضمون کی ایک آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ 29؀ ) 8- الانفال:29 ) ، ہے یعنی اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہارے لئے فرقان کرے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودیوں کے ایک بہت بڑے عالم سے دریافت فرمایا کہ تمہیں ایک نیکی پر زیادہ سے زیادہ کس قدر فضیلت ملتی ہے اس نے کہا ساڑھے تین سو تک ، آپ نے اللہ کا شکر کیا اور فرمایا ہمیں تم سے دوہرا اجر ملا ہے ۔ حضرت سعید نے اسے بیان فرما کر یہی آیت پڑھی اور فرمایا اسی طرح جمعہ کا دوہرا اجر ہے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخض جیسی ہے جس نے چند مزدور کسی کام پر لگانے چاہے اور اعلان کیا کہ کوئی ہے جو مجھ سے ایک قیراط لے اور صبح کی نماز سے لے کر آدھے دن تک کام کرے؟ پس یہود تیار ہو گئے ، اس نے پھر کہا ظہر سے عصر تک اب جو کام کرے اسے میں ایک قیراط دوں گا ، اس پر نصرانی تیار ہوئے کام کیا اور اجرت لی اس نے پھر کہا اب عصر سے مغرب تک جو کام کرے میں اسے دو قیراط دوں گا پس وہ تم مسلمان ہو ، اس پر یہود و نصاریٰ بہت بگڑے اور کہنے لگے کام ہم نے زیادہ کیا اور دام انہیں زیادہ ملے ۔ ہمیں کم دیا گیا ۔ تو انہیں جواب ملا کہ میں نے تمہارا کوئی حق تو نہیں مارا ؟ انہوں نے کہا ایسا تو نہیں ہوا ۔ جواب ملا کہ پھر یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں دو ، صحیح بخاری شریف میں ہے مسلمانوں اور یہود نصرانیوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے چند لوگوں کو کام پر لگایا اجرت ٹھہرالی اور کہا دن بھر کام کرکے کہہ دیا کہ اب ہمیں ضرورت نہیں جو ہم نے کیا اس کی اجرت بھی نہیں چاہتے اور اب ہم کام بھی نہیں کریں گے ، اس نے انہیں سمجھایا بھی کہ ایسا نہ کرو کام پورا کرو اور مزدوری لے جاؤ لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کام ادھورا چھوڑ کر اجرت لئے بغیر چلتے بنے ، اس نے اور مزدور لگائے اور کہا کہ باقی کام شام تک تم پورا کرو اور پورے دن کی مزدوری میں تمہیں دوں گا ، یہ کام پر لگے ، لیکن عصر کے وقت یہ بھی کام سے ہٹ گئے اور کہہ دیا کہ اب ہم سے نہیں ہو سکتا ہمیں آپ کی اجرت نہیں چاہئے اس نے انہیں بھی سمجھایا کہ دیکھو اب دن باقی ہی کیا رہ گیا ہے تم کام پورا کرو اور اجرت لے جاؤ لیکن یہ نہ مانے اور چلے گئے ، اس نے پھر اوروں کو بلایا اور کہا لو تم مغرب تک کام کرو اور دن بھر کی مزدوری لے جاؤ چنانچہ انہوں نے مغرب تک کام کیا اور ان دونوں جماعتوں کی اجرت بھی یہی لے گئے ، پس یہ ہے ان کی مثال اور اس نور کی مثال جسے انہوں نے قبول کیا ۔ پھر فرماتا ہے یہ اس لئے کہ اہل کتاب یقین کرلیں کہ اللہ جسے دے یہ اس کے لوٹانے کی اور جسے نہ دے اسے دینے کی کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور اس بات کو بھی وہ جان لیں کہ فضل و کرم کا مالک صرف وہی پروردگار ہے ، اس کے فضل کا کوئی اندازہ و حساب نہیں لگا سکتا ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آیت ( لئلا یعلم ) کا معنی ( لیعلم ) ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں ( لکی یعلم ) ہے ، اسی طرح حضرت عطا بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی قرأت مروی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ کلام عرب میں لا صلہ کیلئے آتا ہے جو کلام کے اول آخر میں آ جاتا ہے اور وہاں سے انکار مراد نہیں ہوتا جیسے آیت ( مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ 12 ؀ ) 7- الاعراف:12 ) میں ہے اور آیت ( وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٠٩؁ ) 6- الانعام:109 ) میں اور آیت ( وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ 95؀ ) 21- الأنبياء:95 ) میں ۔ الحمد للہ سورۃ حدید کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس ستائیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمیں اپنے پاک کلام کی صحیح سمھجھ دے اور اس پر عمل کی توفیق دے ۔ میرے مہربان اللہ! میرے عاجز ہاتھوں سے اس پاک تفسیر کو پوری کرا ، اسے مکمل مطبوع مجھے دکھا دے ، مقبولیت عطا فرما اور اس پر ہمیں عمل نصیب فرما ۔ اے دلوں کے بھید سے آگاہ اللہ! میری عاجزانہ التماس ہے کہ میرے نامہ اعمال میں اسے ثبت فرما اور میرے تمام گناہوں کا کفارہ اسے کر دے اور اس کے پڑھنے والوں پر رحم فرما اور ان کے دل میں ڈال کہ وہ میرے لئے بھی رحم کی دعا کریں ۔ یا رب اپنے سچے دین کی اور اپنے غلاموں کی تائید کر اور اپنے نبی کے کلام کو سب کے کلاموں پر غالب رکھ ۔ آمین!