Surah

Information

Surah # 61 | Verses: 14 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 109 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذۡ قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهٖ يٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِىۡ وَقَد تَّعۡلَمُوۡنَ اَنِّىۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ اِلَيۡكُمۡؕ فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ‏ ﴿5﴾
اور ( یاد کرو ) جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو! تم مجھے کیوں ستا رہے ہو حالانکہ تمہیں ( بخوبی ) معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے انکے دلوں کو ( اور ) ٹیڑھا کر دیا اور اللہ تعالٰی نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔
و اذ قال موسى لقومه يقوم لم تؤذونني و قد تعلمون اني رسول الله اليكم فلما زاغوا ازاغ الله قلوبهم و الله لا يهدي القوم الفسقين
And [mention, O Muhammad], when Moses said to his people, "O my people, why do you harm me while you certainly know that I am the messenger of Allah to you?" And when they deviated, Allah caused their hearts to deviate. And Allah does not guide the defiantly disobedient people.
Aur ( yaad kero ) jabkay musa ney apni qom say kaha aey meri qom kay logo! Tum mujhay kiyon sata rahey ho halankay tumhen ( ba khoobi ) maloom hai kay mein tumhari janib Allah ka rasool hun pus jab woh log tairhay hi rahey to Allah ney unn kay dilon ko ( aur ) tairhaa ker diya aur Allah Taalaa na farman qom ko hidayat nahi deta.
اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے تکلیف کیوں پہنچاتے ہو ، حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارے پاس اللہ کا پیغمبر بن کر آیا ہوں؟ ( ٣ ) پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا ، ( ٤ ) اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا ۔
اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ، اے میری قوم مجھے کیوں ستاتے ہو ( ف٤ ) حالانکہ تم جانتے ہو ( ف۵ ) کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ( ف٦ ) پھر جب وہ ( ف۷ ) ٹیڑھے ہوئے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیے ( ف۸ ) اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نہیں دیتا ( ف۹ )
اور یاد کرو موسی کی وہ بات جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی ” اے میری قوم کے لوگو ، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں 4 ” ؟ پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے ، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ 5
اور ( اے حبیب! وہ وقت یاد کیجئے ) جب موسٰی ( علیہ السلام ) نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم مجھے اذیت کیوں دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا ( رسول ) ہوں ۔ پھر جب انہوں نے کج روی جاری رکھی تو اللہ نے اُن کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا ، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا
سورة الصَّف حاشیہ نمبر :4 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو اللہ کا نبی اور اپنا محسن جاننے کے باوجود کس کس طرح تنگ کیا اور کیسی کیسی بے وفائیاں ان کے ساتھ کیں ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ ، آیت 51 ۔ 55 ۔ 60 ۔ 67 تا 71 ۔ النساء ، 153 ۔ المائدہ ، 20 تا 26 ۔ الاعراف 138 تا 141 ۔ 148 تا 151 ۔ طٰہٰ 86 تا 98 ۔ بائیبل میں خود یہودیوں کی اپنی بیان کردہ تاریخ بھی اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے ۔ صرف بطور نمونہ چند واقعات کے لیے دیکھیے خروج 20:5 ۔ 21 11:14 ۔ 12 ۔ 2:16 ۔ 3 ۔ 3:17 ۔ 4 ۔ گنتی 1:11 ۔ 15 ۔ 1:14 ۔ 10 ۔ 16 مکمل ۔ 1:20 ۔ 5 یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ مسلمانوں کو خبردار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نبی کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کریں جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی کے ساتھ اختیار کی تھی ، ورنہ وہ اس انجام سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوئے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :5 یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے ، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کو زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے ۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ خود اس شخص یا قوم کی طرف سے ہوتا ہے ، البتہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو گمراہی پسند کرے وہ اس کے لیے راست روی کے نہیں بلکہ گمراہی کے اسباب ہی فراہم کرتا رہے گا کہ جن جن راہوں میں وہ بھٹکنا چاہے بھٹکتا چلا جائے ۔ اللہ نے تو انسان کو انتخاب کی آزادی ( Freedom of Choice ) عطا فرما دی ہے ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہر انسان کا اور انسانوں کے ہر گروہ کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے یا نہیں ، اور راہ راست پسند کرتا ہے یا ٹیڑھے راستوں میں سے کسی پر جانا چاہتا ہے ۔ اس انتخاب میں کوئی جبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے ۔ اگر کوئی اطاعت اور ہدایت کی راہ منتخب کرے تو اللہ اسے جبراً گمراہی و نافرمانی کی طرف نہیں دھکیلتا ، اور اگر کسی کا فیصلہ یہ ہو کہ اسے نافرمانی ہی کرنی ہے اور راہ راست اختیار نہیں کرنی تو اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجبور کر کے طاعت و ہدایت کی راہ پر لائے ۔ لیکن یہ بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جس راستے کو بھی اپنے لیے منتخب کرے اس پر وہ عملاً ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جب تک اللہ اس کے لیے وہ اسباب و ذرائع فراہم اور وہ حالات پیدا نہ کر دے جو اس پر چلنے کے لیے درکار ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی وہ توفیق ہے جس پر انسان کی ہر سعی کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار ہے ۔ اب اگر کوئی شخص بھلائی کی توفیق سرے سے چاہتا ہی نہیں ، بلکہ الٹی برائی کی توفیق چاہتا ہے تو اس کو وہی ملتی ہے ۔ اور جب اسے برائی کی توفیق ملتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی ذہنیت کا سانچا ٹیڑھا اور اس کی سعی و عمل کا راستہ کج ہوتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے اندر سے بھلائی کو قبول کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی معنی ہیں اس ارشاد کے کہ جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے ۔ اس حالت میں یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے کہ جو خود گمراہی چاہتا ہے اور گمراہی کی طلب ہی میں سرگرم ہے اور اسی میں آگے بڑھنے کے لیے اپنی ساری فکر و سعی صرف کر رہا ہے اسے جبراً ہدایت کی طرف موڑ دیا جائے ، کیونکہ ایسا کرنا اس آزمائش اور امتحان کے منشا کو فوت کر دے گا جس کے لیے دنیا میں انسان کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ، اور اس طرح کی ہدایت پاکر اگر آدمی سیدھا چلے تو کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس پر وہ کسی اجر اور جزائے خیر کا مستحق ہو ۔ بلکہ اس صورت میں تو جسے زبردستی ہدایت نہ ملی ہو اور اس بنا پر وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا ہو وہ بھی کسی سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ پھر تو اس کے گمراہ رہنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر آ جاتی ہے اور وہ آخرت میں باز پرس کے موقع پر یہ حجت پیش کر سکتا ہے کہ جب آپ کے ہاں زبردستی ہدایت دینے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے انکو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں دیا کرتا ۔
حضرت عیسیٰ کی طرف سے خاتم الانبیاء کی پشین گوئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلیم اللہحضرت موسیٰ بن عمران نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم میری رسالت کی سچائی جانتے ہو پھر کیوں میرے درپے آزار ہو رہے ہو؟ اس میں گویا ایک طرح سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جاتی ہے ، چنانچہ آپ بھی جب ستائے جاتے تو فرماتے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائے وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھر بھی صابر رہے اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو ادب سکھایا جا ہرا ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء نہ پہنچائیں ایسا نہ کریں جس سے آپ کا دل دکھتا ہو ، جیسے اور جگہ ہے الخ ایمان والو تم ایسے نہ ہونا جیسے موسیٰ کو ایذاء دینے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ذی عزت بندے کو اس کے بہتانوں سے پاک کیا ، پس جبکہ یہ لوگ علم کے باوجود اتباع حق سے ہٹ گئے اور ٹیڑھے چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل ہدایت سے ہٹا دیئے شک و حیرت ان میں سما گئی ، جیسے اور جگہ ہے الخ ، یعنی ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح یہ ہماری آیتوں پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں چھوڑ دیں گے جس میں وہ سرگرداں رہیں گے اور جگہ ہے الخ ، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے ہدایت ظاہر ہو جانے کے بعد اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی دوسرے کی تابعداری کرے ہم اسے ایسی طرف متوجہ کریں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے اور بالاخر اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے ، یہاں بھی ارشاد ہتا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہبری نہیں کرتا ، پھر حضرت عیسیٰ کا خطبہ بیان ہوتا ہے جو آپ نے بنی اسرائیل میں پڑھا تھا جس میں فرمایا تھا کہ توراۃ میں میری خوش بری دی گئی تھی اور اب میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیش گوئی سناتا ہوں جو نبی امی عربی مکی احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، پس حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء اور مرسلین کے خاتم ہیں ، آپ کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے نہ رسول ، نبوت و رسالت سب آپ پر من کل الوجوہ ختمہو گئی ، صحیح بخاری شریف میں ایک نہایت پاکیزہ حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بہت سے نام ہیں محمد ، احمد ، ماحی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں ، یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ، ابو داود میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنے بہت سے نام بیان فرمائے جو ہمیں محفوظ رہے ان میں سے یہ چند ہیں ، فرمایا میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں حاشر ہوں میں مقفی ہوں ، میں نبی الرحمتہ ہوں ، میں نبی التوبہ ہوں ، میں نبی الملممہ ہوں ، یہ حدیث بھی صحیح مسلم شریف میں ہے ، قرآن کریم میں ہے ۔ الخ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول نبی امی کی جنہیں اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں توراۃ میں بھی اور انجیل میں بھی ، اور جگہ فرمان ہے الخ ، اللہ تعالیٰ نے جب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس میرا رسول آئے جو اسے سچ کہتا ہو جو تمہارے ساتھ ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی ضرور مدد کرو گے کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میرا عہد لیتے ہو؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے فرمایا بس گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کوئی نبی اللہ تعالیٰ نے ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس سے یہ اقرار نہ لیا ہو کہ ان کی زندگی میں اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے جائیں تو وہ آپ کی تابعداری کرے بلکہ ہر نبی سے یہ وعدہ بھی لیا جاتا رہا کہ وہ اپنی اپنی امت سے بھی عہد لے لیں ، ایک مرتبہ صحابہ نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں اپنی خبر سنایئے آپ نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ کی خوش خبری ہوں میری والدہ کا جب پاؤں بھاری ہوا تو خواب میں دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات چم اٹھے ( ابن اسحاق ) اس کی سند عمدہ ہے اور دوسری سندوں سے اس کے شواہد بھی ہیں ، مسند احمد میں ہے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم الانبیاء تھا درآنحالیکہ حضرت آدم اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے ۔ میں تمہیں اس کی ابتداء سناؤں ۔ میں اپنے والد حضرت ابراہیم کی دعا ، حضرت عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں ۔ انبیاء کی والدہ اسی طرح خواب دکھائی جاتی ہیں ، مسند احمد میں اور سند سے بھی اسی کے قریب روایت مروی ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے ۔ ہم میں حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت جعفر حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت عثمان بن مطعون حضرت ابو موسیٰ وغیرہ بھی تھے ۔ ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لئے تحفے بھی بھیجے جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری وقم نے ہمیں اس لئے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حالے کر دیجئے ، نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو چنانچہ یہ مسلمان صحابہ دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے؟ جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے ، پوچھا گیا کیوں؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف بھیجا اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں ، اب عمرو بن عاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور ود بادشاہ کو بھڑکانے کے لئے وہ بیج میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد حضرت عسیٰ بن مریم کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مخلاف ہیں ، اس پر بادشاہ نے پوچھا بتاؤ تم حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں روح اللہ ہیں جس روح کو اللہ تعالیٰ کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو کا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں ۔ اے جماعت مہاجرین تمہیں مرحبا ہو اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مرحبا ہو جن کے پاس سے تم آئے ہو میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں یہ وہی ہیں جن کی پیش گوئی ہم نے انجیل میں پڑھی ہے اور یہ وہی ہیں جن کی بشارت ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے میری طرف سے تمہیں عام اجازت ہے جہاں چاہو رہو سہو اللہ کی قسم اگر ملک کی اس جھنجٹسے میں آزاد ہہوتا تو میں یقیناً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ کی جوتیاں اٹھاتا آپ کی خدمت کرتا اور آپ کو وضو کراتا اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں اپس کر دیا جائے ۔ ان مہاجرین کرام میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود تو جلد ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی ۔ اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کے لئے بخشش کی دعا مانگی ۔ یہ پورا واقعہ حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے مروی ہے ۔ تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کر دیا مزید تفصیل سیرت کی کتابں میں ملاحظہ ہو ، ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اگلے انبیاء کرام علیہم السلام برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے ، ہاں آپ کے امر کی شہرت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث حضرت عیسیٰ کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت داء خلیل اور نوید مسح کی طرف کی ہے اس سے یہی مراد ہے ان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لئے تھا کہ اہل مکہ میں آپ کی رشوع شہرت کا باعث یہ خواب تھا ، اللہ تعالیٰ آپ پر بیشمار درود و رحمت بھیجے ۔ پھر ارشاد ہتا ہے کہ باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے ۔