Surah

Information

Surah # 62 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 110 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذَا رَاَوۡا تِجَارَةً اَوۡ لَهۡوَا۟ اۨنْفَضُّوۡۤا اِلَيۡهَا وَتَرَكُوۡكَ قَآٮِٕمًا‌ ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ مِّنَ اللَّهۡوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ‌ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ‏ ﴿11﴾
اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالٰی بہترین روزی رساں ہے ۔
و اذا راوا تجارة او لهوا انفضوا اليها و تركوك قاىما قل ما عند الله خير من اللهو و من التجارة و الله خير الرزقين
But when they saw a transaction or a diversion, [O Muhammad], they rushed to it and left you standing. Say, "What is with Allah is better than diversion and than a transaction, and Allah is the best of providers."
Aur jab koi soda biktay dekhen ya koi tamasha nazar aajaye to uss ki taraf dortay jatay hain aur aap ko khara hi chor detay hain aap keh dijiye kay Allah kay pass jo hai woh khel aur tijarat say behtar hai. Aur Allah Taalaa behtareen rozi rasan hai.
اور جب کچھ لوگوں نے کوئی تجارت یا کوئی کھیل دیکھا تو اس کی طرف ٹوٹ پڑے ، اور تمہیں کھڑا ہوا چھوڑ دیا ۔ ( ٨ ) کہہ دو کہ : جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل اور تجارت سے کہیں زیادہ بہتر ہے ، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔
اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دیے ( ف۲۵ ) اور تمہیں خطبے میں کھڑا چھوڑ گئے ( ف۲٦ ) تم فرماؤ وہ جو اللہ کے پاس ہے ( ف۲۷ ) کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے ، اور اللہ کا رزق سب سے اچھا ،
اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑدیا 19 ۔ ان سے کہو ، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے 20 اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے 21 ۔ ع
اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو ( اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث ) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو ( خطبہ میں ) کھڑے چھوڑ گئے ، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے ، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :19 یہ ہے وہ واقعہ جس کی وجہ سے اوپر کی آیات میں جمعہ کے احکام ارشاد فرمائے گئے ہیں ۔ اس کا قصہ جو کتب حدیث میں حضرت جابر بن عبداللہ ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو مالک ، اور حضرات حسن بصری ، ابن زید ، قتادہ ، اور مقاتل بن حیان سے منقول ہوا ہے ، یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نماز جمعہ کے وقت آیا اور اس نے ڈھول تاشے بجانے شروع کیے تاکہ بستی کے لوگوں کو اس کی آمد کی اطلاع ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ ڈھول تاشوں کی آوازیں سن کر لوگ بے چین ہو گئے اور 12 آدمیوں کے سوا باقی سب بقیع کی طرف دوڑ گئے جہاں قافلہ اترا ہوا تھا ۔ اس قصے کی روایات میں سب سے زیادہ معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی ہے جسے امام احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابو عوانہ ، عبد بن حمید ، ابویعلیٰ وغیرہم نے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے ۔ اس میں اضطراب صرف یہ ہے کہ کسی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ نماز کی حالت میں پیش آیا تھا ، اور کسی میں یہ ہے کہ یہ اس وقت پیش آیا جب حضور خطبہ دے رہے تھے ۔ لیکن حضرت جابر اور دوسرے صحابہ و تابعین کی تمام روایات کو جمع کرنے سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ دوران خطبہ کا واقعہ ہے اور حضرت جابر نے جہاں یہ کہا ہے کہ یہ نماز جمعہ کے دوران میں پیش آیا ، وہاں دراصل انہوں نے خطبے اور نماز کے مجموعہ پر نماز جمعہ کا اطلاق کیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت 12 مردوں کے ساتھ ایک عورت تھی ( ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم ) ۔ دارقطنی کی ایک روایت میں 40 افراد اور عبد بن حمید کی روایت میں 7 نفر بیان کیے گئے ہیں ۔ اور فرّاء نے 8 نفر لکھے ہیں ۔ لیکن یہ سب ضعیف روایات ہیں ۔ اور قتادہ کی یہ روایت بھی ضعیف ہے کہ اس طرح کا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا تھا ( ابن جریر ) ۔ معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی ہے جس میں باقی رہ جانے والوں کی تعداد 12 بتائی گئی ہے ۔ اور قتادہ کی ایک روایت کے سوا باقی تمام صحابہ و تابعین کی روایات اس پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا ۔ باقی رہ جانے والوں کے متعلق مختلف روایت کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عمار بن یاسر ، حضرت سالم مولیٰ حصیفہ ، اور حضرت جابر بن عبداللہ ( رضی اللہ عنہم ) شامل تھے ۔ حافظ ابو یعلیٰ نے حضرت جابر بن عبداللہ کی جو روایت نقل کی ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگ اس طرح نکل کر لے گئے اور صرف بارہ اصحاب باقی رہ گئے تو ان کو خطاب کر کے حضور نے فرمایا والذی نفسی بیدہ لو تتابعتم حتی لم یبق منکم احد لسال بکم الوادی ناراً ، اگر تم سب چلے جاتے اور ایک بھی باقی نہ رہتا تو یہ وادی آگ سے بہ نکلتی ۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور ابن جریر نے قتادہ سے نقل کیا ہے ۔ شیعہ حضرات نے اس واقعہ کو بھی صحابہ پر طعن کرنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد کا خطبے اور نماز کو چھوڑ کر تجارت اور کھیل تماشے کی طرف دوڑ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے تھے ۔ لیکن یہ ایک سخت بے جا اعتراض ہے جو صرف حقائق سے آنکھیں بند کر کے ہی کیا جا سکتا ہے ۔ دراصل یہ واقعہ ہجرت کے بعد قریبی زمانے ہی میں پیش آیا تھا ۔ اس وقت ایک طرف تو صحابہ کی اجتماعی تربیت ابتدائی مراحل میں تھی ۔ اور دوسری طرف کفار مکہ نے اپنے اثر سے مدینہ طیبہ کے باشندوں کی سخت معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس کی وجہ سے مدینے میں اشیائے ضرورت کمیاب ہو گئی تھیں ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس وقت مدینے میں لوگ بھوکوں مر رہے تھے اور قیمتیں بہت چڑھی ہوئی تھیں ( ابن جریر ) ۔ اس حالت میں جب ایک تجارتی قافلہ آیا تو لوگ اس اندیشے سے کہ کہیں ہمارے نماز سے فارغ ہوتے ہوتے سامان فروخت نہ ہو جائے ، گھبرا کر اس کی طرف دوڑ گئے ۔ یہ ایک ایسی کمزوری اور غلطی تھی جو اس وقت اچانک تربیت کی کمی اور حالات کی سختی کے باعث رو نما ہو گئی تھی ۔ لیکن جو شخص بھی ان صحابہ کی وہ قربانیاں دیکھے گا جو اس کے بعد انہوں نے اسلام کے لیے کیں ، اور یہ دیکھے گا کہ عبادات اور معاملات میں ان کی زندگیاں کیسے زبردست تقویٰ کی شہادت دیتی ہیں ، وہ ہرگز یہ الزام رکھنے کی جرأت نہ کر سکے گا کہ ان کے اندر دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کا کوئی مرض پایا جاتا تھا ، الّا یہ کہ اس کے اپنے دل میں صحابہ سے بغض کا مرض پایا جاتا ہو ۔ تاہم یہ واقعہ جس طرح صحابہ کے معترضین کی تائید نہیں کرتا اسی طرح ان لوگوں کے خیالات کی تائید بھی نہیں کرتا جو صحابہ کی عقیدت میں غلو کر کے اس طرح کے دعوے کرتے ہیں کہ ان سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی ، یا ہوئی بھی ہو تو اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ ان کی غلطی کا ذکر کرنا اور اسے غلطی کہنا ان کی توہین ہے ، اور اس سے ان کی عزت و وقعت دلوں میں باقی نہیں رہتی ، اور اس کا ذکر ان آیات و احادیث کے خلاف ہے جن میں صحابہ کے مغفور اور مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی تصریح کی گئی ہے ۔ یہ ساری باتیں سراسر مبالغہ ہیں جن کے لیے قرآن و حدیث میں کوئی سند موجود نہیں ہے ۔ یہاں ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس غلطی کا ذکر کیا ہے جو صحابہ کی ایک کثیر تعداد سے صادر ہوئی تھی ۔ اس کتاب میں کیا ہے جسے قیامت تک ساری امت کو پڑھنا ہے ۔ اور اسی کتاب میں کیا ہے جس میں ان کے مغفور اور مقبول بارگاہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے ۔ پھر حدیث و تفسیر کی تمام کتابوں میں صحابہ سے لے کر بعد کے اکابر اہل سنت تک نے اس غلطی کی تفصیلات بیان کی ہیں ۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر انہی صحابہ کی وقعت دلوں سے نکالنے کے لیے کیا ہے جن کی وقعت وہ خود دلوں میں قائم فرمانا چاہتا ہے ؟ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین اور محدثین و مفسرین نے اس قصے کی ساری تفصیلات اس شرعی مسئلے سے ناواقفیت کی بنا پر بیان کر دی ہیں جو یہ خالی حضرات بیان کیا کرتے ہیں؟ اور کیا فی الواقع سورہ جمعہ پڑھنے والے اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے دلوں سے صحابہ کی وقعت نکل گئی ہے ؟ اگر ان میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ، اور یقیناً نفی میں ہے ، تو وہ سب بے جا اور مبالغہ آمیز باتیں غلط ہیں جو احترام صحابہ کے نام سے بعض لوگ کیا کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کوئی آسمانی مخلوق نہ تھے بلکہ اسی زمین پر پیدا ہونے والے انسانوں میں سے تھے ۔ وہ جو کچھ بھی بنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے بنے ۔ یہ تربیت بتدریج سالہا سال تک ان کو دی گئی ۔ اس کا جو طریقہ قرآن و حدیث میں ہم کو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کبھی ان کے اندر کسی کمزوری کا ظہور ہوا ، اللہ اور اس کے رسول نے بروقت اس کی طرف توجہ فرمائی ، اور فوراً اس خاص پہلو میں تعلیم و تربیت کا ایک پروگرام شروع ہو گیا جس میں وہ کمزوری پائی گئی تھی ۔ اسی نماز جمعہ کے معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب قافلہ تجارت والا واقعہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ جمعہ کا یہ رکوع نازل فرما کر اس پر تنبیہ کی اور جمعہ کے آداب بتائے ۔ پھر اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل اپنے خطبات مبارکہ میں فرضیت جمعہ کی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین فرمائی ، جس کا ذکر ہم حاشیہ 15 میں کر آئے ہیں ، اور تفصیل کے ساتھ ان کو آداب جمعہ کی تعلیم دی ۔ چنانچہ احادیث میں یہ ساری ہدایات ہم کو بڑی واضح صورت میں ملتی ہیں ۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان کو جمعہ کے روز غسل کرنا چاہیے ، دانت صاف کرنے چاہییں ، جو اچھے کپڑے اس کو میسر ہوں پہننے چاہییں ، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگانی چاہیے ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان جمعہ کے روز غسل کرے اور حتی الامکان زیادہ اپنے آپ کو پاک صاف کرے ، سر میں تیل لگائے یا جو خوشبو گھر میں موجود ہو وہ لگائے ، پھر مسجد جائے اور دو آدمیوں کو ہٹا کر ان کے بیچ میں نہ گھسے ، پھر جتنی کچھ اللہ توفیق دے اتنی نماز ( نفل ) پڑھے ، پھر جب امام بولے تو خاموش رہے ، اس کے قصور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک معاف ہو جاتے ہیں ( بخاری ، مسند احمد ) ۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایات حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت نُبَیْشَۃُ الْھَذلِی نے بھی حضور سے نقل کی ہیں ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، طبرانی ) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام خطبہ دے رہا ہو اس وقت جو شخص بات کرے وہ اس گدھے کے مانند ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں ، اور جو شخص اس سے کہے کہ چپ رہ ، اس کا بھی کوئی جمعہ نہیں ہوا ( مسند احمد ) ۔ حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے جمعہ کے روز خطبہ کے دوران میں بات کرنے والے شخص سے کہا چپ رہ تو تم نے بھی لغو حرکت کی ( بخاری ، مسلم ، نسائی ترمذی ، ابو داؤد ) ۔ اسی سے ملتی جلتی روایات امام احمد ، ابو داؤد اور طبرانی نے حضرت علی اور حضرت ابو الدرداء سے نقل کی ہیں ۔ اس کے ساتھ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خطیبوں کو بھی ہدایت فرمائی کہ لمبے لمبے خطبے دے کر لوگوں کو تنگ نہ کریں ۔ آپ خود جمعہ کے روز مختصر خطبہ ارشاد فرماتے اور نماز بھی زیادہ لمبی نہ پڑھاتے تھے ۔ حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ حضور طویل خطبہ نہیں دیتے تھے ۔ وہ بس چند مختصر کلمات ہوتے تھے ( ابو داؤد ) ۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خطبہ نماز کی بہ نسبت کم ہوتا تھا اور نماز اس سے زیادہ طویل ہوتی تھی ( نسائی ) ۔ حضرت عمار بن یاسر کی روایت ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا آدمی کی نماز کا طویل ہونا اور خطبے کا مختصر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ دین کی سمجھ رکھتا ہے ( مسند احمد ، مسلم ) ۔ تقریباً یہی مضمون بزار نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے ۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح لوگوں کو جمعہ کے آداب سکھائے یہاں تک کہ اس نماز کی وہ شان قائم ہوئی جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم کی اجتماعی عبادت میں نہیں پائی جاتی ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :20 یہ فقرہ خود بتا رہا ہے کہ صحابہ سے جو غلطی ہوئی تھی اس کی نوعیت کیا تھی ۔ اگر معاذ اللہ اس کی وجہ ایمان کی کمی اور آخرت پر دنیا کی دانستہ ترجیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور زجر و توبیخ کا انداز کچھ اور ہوتا ۔ لیکن چونکہ ایسی کوئی خرابی وہاں نہ تھی ، بلکہ جو کچھ ہوا تھا تربیت کی کمی کے باعث ہوا تھا ، اس لیے پہلے معلمانہ انداز میں جمعہ کے آداب بتائے گئے ، پھر اس غلطی پر گرفت کر کے مربیانہ انداز میں سمجھایا گیا کہ جمعہ کا خطبہ سننے اور اس کی نماز ادا کرنے پر جو کچھ تمہیں خدا کے ہاں ملے گا وہ اس دنیا کی تجارت اور کھیل تماشوں سے بہتر ہے ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :21 یعنی اس دنیا میں مجازاً جو بھی رزق رسانی کا ذریعہ بنتے ہیں ان سب سے بہتر رازق اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس طرح کے فقرے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آئے ہیں ۔ کہیں اللہ تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ، کہیں خیر الغافرین ، کہیں خیر الحاکمین ، کہیں خیر الراحمین ، کہیں خیرالناصرین ۔ ان سب مقامات پر مخلوق کی طرف رزق ، تخلیق ، مغفرت ، رحم اور نصرت کی نسبت مجازی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف حقیقی ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بھی دنیا میں تم کو تنخواہ ، اجرت یا روٹی دیتے نظر آتے ہیں ، یا جو لوگ بھی اپنی صنعت و کاریگری سے کچھ بناتے نظر آتے ہیں ، یا جو لوگ بھی دوسروں کے قصور معاف کرتے اور دوسروں پر رحم کھاتے اور دوسروں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں ، اللہ ان سب سے بہتر رازق ، خالق ، رحیم ، غفور اور مدد گار ہے ۔
تجارت عبادت اور صلوۃ جمعہ٭٭ مدینہ میں جمعہ والے دن تجارتی مال کے آ جانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، انہیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اس کی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور تجھے خطبہ میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں ، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں یہ مال تجارت وحیہ بن خلیفہ کا تھا جمعہ والے دن آیا اور شہر میں خبر کے لئے طب بجنے لگا حضرت وحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے صرف چند آدمی رہ گئے ، مسند احمد میں ہے صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی لوگ اس تجارتی قافلہ کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری ۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ بھی باقی نہ رہتے اور سب کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری ۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی ، جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہیں گئے تھے ، ان میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق عنہما بھی تھے ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہئے ، صحیح مسلم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن دو خطبے پڑھتے تھے درمیان میں بیٹھ جاتے تھے قرآن شریف پڑھتے تھے اور لوگوں کو تذکیرہ نصیحت فرماتے تھے ، یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ یہ واقعہ بہ قول بعض کے اس وقت کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے ۔ مراسیل ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے ، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے آن کر کہا وحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے کر آ گیا ہے ، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہوگئے ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خبر سنا دو کہ دار آخرت کا ثواب عند اللہ ہے وہ کھیل تماشوں سے خرید و فروخت سے بہت ہی بہتر ہے ، اللہ پر توکل رکھ کر ، طلب رزق اوقات اجازت میں جو کرے اللہ اسے بہترین طریق پر روزیاں دے گا ۔ الحمد اللہ سورہ جمعہ کی تفسیر پوری ہوئی ۔