Surah

Information

Surah # 63 | Verses: 11 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 104 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذَا رَاَيۡتَهُمۡ تُعۡجِبُكَ اَجۡسَامُهُمۡ‌ ؕ وَاِنۡ يَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِهِمۡ‌ ؕ كَاَنَّهُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ   ‌ؕ يَحۡسَبُوۡنَ كُلَّ صَيۡحَةٍ عَلَيۡهِمۡ‌ ؕ هُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡهُمۡ‌ ؕ قَاتَلَهُمُ اللّٰهُ‌ اَنّٰى يُـؤۡفَكُوۡنَ‏ ﴿4﴾
جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو خوشنما معلوم ہوں یہ جب باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتوں پر ( اپنا ) کان لگائیں گویا کہ یہ لکڑیاں ہیں دیوار کے سہارے سےلگائی ہو ئیں ہر ( سخت ) آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو اللہ انہیں غارت کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں ۔
و اذا رايتهم تعجبك اجسامهم و ان يقولوا تسمع لقولهم كانهم خشب مسندة يحسبون كل صيحة عليهم هم العدو فاحذرهم قتلهم الله انى يؤفكون
And when you see them, their forms please you, and if they speak, you listen to their speech. [They are] as if they were pieces of wood propped up - they think that every shout is against them. They are the enemy, so beware of them. May Allah destroy them; how are they deluded?
Jab aap enhen dekh len to inn kay jism aap ko khushnuma maloom hon yeh jab baaten kerney lagen to aap inn ki baaton per ( apna ) kaan lagayen goya kay yeh lakriyan hain deewar kay shaharay lagee huin her ( sakht ) aawaz ko apney khilaf samajhtay hain yehi haqeeqi dushman hain inn say bacho Allah enhen ghaarat keray kahan say phiray jatay hain.
جب تم ان کو دیکھو تو ان کے ڈیل ڈول تمہیں بہت اچھے لگیں ، اور اگر وہ بات کریں تو اتم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ ، ( ٢ ) ان کی مثال ایسی ہے جیسے یہ لکڑیاں ہیں جو کسی سہارے سے لگی رکھی ہیں ، ( ٣ ) یہ ہر چیخ پکار کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں ۔ ( ٤ ) یہی ہیں جو ( تمہارے ) دشمن ہیں ، اس لیے ان سے ہوشیار رہو ۔ اللہ کی مار ہو ان پر ۔ یہ کہاں اوندھے چلے جارہے ہیں؟
اور جب تو انہیں دیکھے ( ف۷ ) ان کے جسم تجھے بھلے معلوم ہوں ، اور اگر بات کریں تو تو ان کی بات غور سے سنے ( ف۸ ) گویا وہ کڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئی ( ف۹ ) ہر بلند آواز اپنے ہی اوپر لے جاتے ہیں ( ف۱۰ ) وہ دشمن ہیں ( ف۱۱ ) تو ان سے بچتے رہو ( ف۱۲ ) اللہ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں ( ف۱۳ )
انہیں دیکھو تو ان کے جتنے تمھیں بڑے شاندار نظر آئیں ۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے 5 رہ جاؤ ۔ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیئے گئے ہوں 6 ۔ ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں 7 ۔ یہ پکے دشمن ہیں 8 ، ان سے بچ کر رہو 9 ، اللہ کی مار ان پر 10 ، یہ کدھر الٹے پھر ائے جا رہے ہیں 11 ۔
۔ ( اے بندے! ) جب تو انہیں دیکھے تو اُن کے جسم ( اور قد و قامت ) تجھے بھلے معلوم ہوں ، اور اگر وہ باتیں کریں تو اُن کی گفتگو تُو غور سے سنے ( یعنی تجھے یوں معقول دکھائی دیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ) وہ لوگ گویا دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیاں ہیں ، وہ ہر اونچی آواز کو اپنے اوپر ( بَلا اور آفت ) سمجھتے ہیں ، وہی ( منافق تمہارے ) دشمن ہیں سو اُن سے بچتے رہو ، اللہ انہیں غارت کرے وہ کہاں بہکے پھرتے ہیں
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :5 حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی بڑے ڈیل ڈول کا ، تندرست ، خوش شکل اور چرب زبان آدمی تھا ۔ اور یہی شان اس کے بہت سے ساتھیوں کی تھی ۔ یہ سب مدینہ کے رئیس لوگ تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آتے تو دیواروں سے تکیے لگا کر بیٹھتے اور بڑی لچھے دار باتیں کرتے ۔ ان کے جُثّے بشرے کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر کوئی یہ گمان تک نہ کر سکتا تھا کہ بستی کے یہ معززین اپنے کردار کے لحاظ سے اتنے ذلیل ہوں گے ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :6 یعنی یہ جو دیواروں کے ساتھ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، یہ انسان نہیں ہیں بلکہ لکڑی کے کندے ہیں ۔ ان کو لکڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جوہر انسانیت ہے ۔ پھر انہیں دیوار سے لگے ہوئے کندوں سے تشبیہ دے کر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ بالکل ناکارہ ہیں ۔ کیونکہ لکڑی بھی اگر کوئی فائدہ دیتی ہے تو اس وقت جب کہ وہ کسی چھت میں ، یا کسی دروازے میں یا کسی فرنیچر میں لگ کر استعمال ہو رہی ہو ۔ دیوار سے لگا کر کندے کی شکل میں جو لکڑی رکھ دی گئی ہو وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دیتی ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :7 اس مختصر سے فقرے میں ان کے مجرم ضمیر کی تصویر کھینچ دی گئی ہے ۔ چونکہ وہ اپنے دلوں میں خوب جانتے تھے کہ وہ ایمان کے ظاہر پردے کی آڑ میں منافقت کا کیا کھیل کھیل رہے ہیں ، اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کب ان کے جرائم کا راز فاش ہو ، یا ان کی حرکتوں پر اہل ایمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور ان کی خبر لے ڈالی جائے ۔ بستی میں کسی طرف سے بھی کوئی زور کی آواز آتی یا کہیں کوئی شور بلند ہوتا تھا تو وہ سہم جاتے اور یہ خیال کرتے تھے کہ آ گئی ہماری شامت ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :8 دوسرے الفاظ میں کھلے دشمنوں کی بہ نسبت یہ چھپے ہوئے دشمن زیادہ خطرناک ہیں ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :9 یعنی ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھاؤ ۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :10 یہ بد دعا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں اس فیصلے کا اعلان ہے کہ وہ اس کی مار کے مستحق ہو چکے ہیں ، ان پر اس کی مار پڑ کر رہے گی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے لُغوی معنی میں استعمال نہ فرمائے ہوں بلکہ عربی محاورے کے مطابق لعنت اور پھٹکار اور مذمت کے لیے استعمال کیے ہوں ، جیسے اردو میں ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ستیاناس اس کا ، کیسا خبیث آدمی ہے ۔ اس لفظ ستیاناس سے مقصود اس کی خیانت کی شدت ظاہر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرنا ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :11 یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو ایمان سے نفاق کی طرف الٹا پھر انے والا کون ہے ۔ اس کی تصریح نہ کرنے سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کی اس اوندھی چال کا کوئی ایک محرک نہیں ہے بلکہ بہت سے محرکات اس میں کار فرما ہیں ۔ شیطان ہے ۔ برے دوست ہیں ۔ ان کے اپنے نفس کی اغراض ہیں ۔ کسی کی بیوی اس کی محرک ہے ۔ کسی کے بچے اس کے محرک ہیں ۔ کسی کی برادری کے اشرار اس کے محرک ہیں ۔ کسی کو حسد اور بغض اور تکبر نے اس راہ پر ہانک دیا ہے ۔