Surah

Information

Surah # 65 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 99 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحۡصُوا الۡعِدَّةَ ‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمۡ‌ ۚ لَا تُخۡرِجُوۡهُنَّ مِنۡۢ بُيُوۡتِهِنَّ وَلَا يَخۡرُجۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيۡنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ‌ ؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ‌ ؕ وَمَنۡ يَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰهِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَهٗ‌ ؕ لَا تَدۡرِىۡ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰ لِكَ اَمۡرًا‏ ﴿1﴾
اے نبی! ( اپنی امت سے کہو کہ ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت ( کے دنوں کے آغاز ) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو اور نہ وہ ( خود ) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالٰی کوئی نئی بات پیدا کردے ۔
يايها النبي اذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن و احصوا العدة و اتقوا الله ربكم لا تخرجوهن من بيوتهن و لا يخرجن الا ان ياتين بفاحشة مبينة و تلك حدود الله و من يتعد حدود الله فقد ظلم نفسه لا تدري لعل الله يحدث بعد ذلك امرا
O Prophet, when you [Muslims] divorce women, divorce them for [the commencement of] their waiting period and keep count of the waiting period, and fear Allah , your Lord. Do not turn them out of their [husbands'] houses, nor should they [themselves] leave [during that period] unless they are committing a clear immorality. And those are the limits [set by] Allah . And whoever transgresses the limits of Allah has certainly wronged himself. You know not; perhaps Allah will bring about after that a [different] matter.
Aey nabi! ( apni ummat say kaho kay ) jab tum apni biwiyon ko tallaq dena chahao to unn ki iddat ( kay dino kay aaghaaz ) mein unhen tallaq do aur iddat ka hisab rakho aur Allah say jo tumhara perwerdigar hai dartay raho na tum enhen inn kay gharon say nikalo aur na woh ( khud ) niklen haan yeh aur baat hai kay woh khuli buraee ker bethen yeh Allah ki muqarrar kerda hadden hain jo shaks Allah ki haddon say aagay barh jaye uss ney yaqeenan apney upper zulm kiya tum nahi jantay shayad iss kay baad Allah Taalaa koi naee baat peda ker dey.
اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو ، ( ١ ) اور عدت کو اچھی طرح شمار کرو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے ، ان عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو ، اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں ، ( ٢ ) اور یہ اللہ کی ( مقرر کی ہوئی ) حدود ہیں اور جو کوئی اللہ کی ( مقرر کی ہوئی ) حدود سے آگے نکلے ، اس نے خود اپنی جان پر ظلم کیا ، تم نہیں جانتے ، شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے ۔ ( ٣ )
اے نبی ( ف۲ ) جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو ( ف۳ ) اور اپنے رب اللہ سے ڈرو ، عدت میں انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں ( ف٤ ) مگر یہ کہ کوئی صریح بےحیائی کی بات لائیں ( ف۵ ) اور یہ اللہ کی حدیں ہیں ، اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھا بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا ، تمہیں نہیں معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی نیا حکم بھیجے ( ف٦ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیئے طلاق دیا کرو 1 ۔ اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو 2 ، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ۔ ( زمانہ عدت میں ) نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور وہ نہ خود نکلیں ، 3 الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں 4 ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا ۔ تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ ( موافقت کی ) کوئی صورت پیدا کر دے 5
اے نبی! ( مسلمانوں سے فرما دیں: ) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے ، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں ، اور یہ اللہ کی ( مقررّہ ) حدیں ہیں ، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے ، ( اے شخص! ) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے ( طلاق دینے کے ) بعد ( رجوع کی ) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :1 1 ۔ یعنی تم لوگ طلاق دینے کے معاملہ میں یہ جلد بازی نہ کیا کرو کہ جونہی میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوا ، فوراً ہی غصّے میں آکر طلاق دے ڈالی ، اور نکاح کا جھٹکا اس طرح کیا کہ رجوع کی گنجائش بھی نہ چھوڑی ۔ بلکہ جب تمہیں بیویوں کو طلاق دینا ہو تو ان کی عدت کے لیے دیا کرو ۔ عدت کے لیے طلاق دینے کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں: ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دو ، یا بالفاظ دیگر اس وقت طلاق دو جس سے ان کی عدت شروع ہوتی ہو ۔ یہ بات سورہ بقرہ آیت 228 میں بتائی جا چکی ہے کہ جس مدخولہ عورت کو حیض آتا ہو اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آنا ہے ۔ اس حکم کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دینے کی صورت لازماً یہی ہو سکتی ہے کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے ، کیوں کہ اس کی عدت اس حیض سسے شروع نہیں ہو سکتی جس میں اسے طلاق دی گئی ہو ، اور اس حالت میں طلاق دینے کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف عورت کی عدت تین حیض کے بجائے چار حیض بن جائے ۔ مزید براں اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو اس طُہر میں طلاق نہ دی جائے جس میں شوہر اس سے مباشرت کر چکا ہو ، کیونکہ اس صورت میں طلاق دیتے وقت شوہر اور بیوی دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آیا مباشرت کے نتیجے میں کوئی حمل قرار پا گیا ہے یا نہیں ، اس وجہ سے عدت کا آغاز نہ اس مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ عدت آئندہ حیضوں کے اعتبار سے ہو گی اور نہ اسی مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ حاملہ عورت کی عدت ہو گی ۔ پس یہ حکم بیک وقت دو باتوں کا مقتضی ہے ۔ ایک یہ کہ حیض کی حالت میں طلاق نہ دی جائے ۔ دوسرے یہ کہ طلاق یا تو اس طُہر میں دی جائے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو ، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو ۔ غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ طلاق پر یہ قیدیں لگانے میں بہت بڑی مصلحتیں ہیں ۔ حیض کی حالت میں طلاق نہ دینے کی مصلحت یہ ہے کہ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان مباشرت ممنوع ہونے کی وجہ سے ایک طرح کا بُعد پیدا ہو جاتا ہے ، اور طبی حیثیت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اس حالت میں عورت کا مزاج معمول پر نہیں رہتا ۔ اس لیے اگر اس وقت دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہو جائے تو عورت اور مرد دونوں اسے رفع کرنے کے معاملہ میں ایک حد تک بے بس ہوتے ہیں ، اور جھگڑے سے طلاق تک نوبت پہنچانے کے بجائے اگر عورت کے حیض سے فارغ ہونے تک انتظار کر لیا جائے تو اس امر کا کافی امکان ہوتا ہے کہ عورت کا مزاج بھی معمول پر آ جائے اور دونوں کے درمیان فطرت نے جو طبعی کشش رکھی ہے وہ بھی اپنا کام کر کے دونوں کو پھر سے جوڑ دے ۔ اسی طرح جس طہر میں مباشرت کی جا چکی ہو اس میں طلاق کے ممنوع ہونے کی مصلحت یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حمل قرار پا جائے تو مرد اور عورت ، دونوں میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے وہ وقت طلاق دینے کے لیے موزوں نہیں ہے ۔ حمل کا علم ہو جانے کی صورت میں تو مرد بھی دس مرتبہ سوچے گا کہ جس عورت کے پیٹ میں اس کا بچہ پرورش پا رہا ہے اسے طلاق دے یا نہ دے ، اور عورت بھی اپنے اور اپنے بچے کے مستقبل کا خیال کر کے شوہر کی ناراضی کے اسباب دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی ۔ لیکن اندھیرے میں بے سوچے سمجھے تیر چلا بیٹھنے کے بعد اگر معلوم ہو کہ حمل قرار پا چکا تھا ، تو دونوں کو پچھتانا پڑے گا ۔ یہ تو ہے عدت کے لیے طلاق دینے پہلا مطلب ، جس کا اطلاق صرف ان مدخولہ عورتوں پر ہوتا ہے جن کو حیض ٓآتا ہو اور جن کے حاملہ ہونے کا امکان ہو ۔ اب رہا اس کا دوسرا مطلب ، تو وہ یہ ہے کہ طلاق دینا ہو تو عدت تک کے لیے طلاق دو ، یعنی بیک وقت تین طلاق دے کر ہمیشہ کی علیٰحدگی کے لیے طلاق نہ دے بیٹھو ، بلکہ ایک ، یا حد سے حد دو طلاقیں دے کر عدت تک انتظار کرو تا کہ اس مدت میں ہر وقت تمہارے لیے رجوع کی گنجائش باقی رہے ۔ اس مطلب کے لحاظ سے یہ حکم ان مدخولہ عورتوں کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آتا ہو اور ان کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ، یا جن کا طلاق کے وقت حاملہ ہونا معلوم ہو ، اس فرمان الہٰی کی پیروی کی جائے تو کسی شخص کو بھی طلاق دے کر پچھتانا نہ پڑے ، کیونکہ اس طرح طلاق دینے سے عدت کے اندر رجوع بھی ہو سکتا ہے ، اور عدت گزر جانے کے بعد بھی یہ ممکن رہتا ہے کہ سابق میاں بیوی پھر باہم رشتہ جوڑنا چاہیں تو از سر نو نکاح کرلیں ۔ طَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ کے یہی معنی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں ۔ ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ طلاق حیض کی حالت میں نہ دے ، اور نہ اس طہر میں دے جس کے اندر شوہر مباشرت کر چکا ہو ، بلکہ اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہو جائے ۔ پھر اسے ایک طلاق دے دے ۔ اس صورت میں اگر وہ رجوع نہ بھی کرے اور عدت گزر جائے تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہو گی ( ابن جریر ) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں عدت کے لیے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے ۔ یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عمر ، مجاہد ، میمون بن مہران ، مقاتِل بن حَیان ، اور ضحاک رحمہم اللہ سے مروی ہے ( ابن کثیر ) عکرمہ اس کا مطلب بیان کرتے ہیں طلاق اس حالت میں دے کہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو ، اور اس حالت میں نہ دے کہ وہ اس سے مباشرت کر چکا ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ حاملہ ہو گئی ہے یا نہیں ( ابن کثیر ) ۔ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین ، دونوں کہتے ہیں طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے ، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ حمل ظاہر ہو چکا ہو ( ابن جریر ) ۔ اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی ۔ اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی تمام کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ، اور وہی در حقیقت اس معاملہ میں قانون کی ماخذ ہیں ۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمر نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ۔ آپ سن کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس کو حکم دو کہ بیوی سے رجوع کر لے اور اسے اپنی زوجیت میں روکے رکھے یہاں تک کہ وہ طاہر ہو ، پھر اسے حیض آئے اور اس سے بھی فارغ ہو کر وہ پاک ہو جائے ، اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ۔ یہی وہ عدت ہے جس کے لیے طلاق دینے کا اللہ عزو جل نے حکم دیا ہے ۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ یا تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ، یا پھر ایسی حالت میں دے جبکہ اس کا حمل ظاہر ہو چکا ہو اس آیت کے منشا پر مزید روشنی چند اور احادیث بھی ڈالتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اکابر صحابہ سے منقول ہیں ۔ نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا اَیُلْعَبُ بکتابِ اللہِ وَانَا بَیْنَ اظہرکم؟ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جا رہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟ اس حرکت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟ عبدالرزاق نے حضرت عبادہ بن الصامت کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں ۔ انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسئلہ پوچھا ۔ آپ نے فرمایا : بانت منہ بثالث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ ، و بقی تسع مأۃ و سبع و تسعون ظُلْماً و عُدْو اناً ، ان شاء اللہ عذَّبہ ، وان شاء غفر لہ تین طلاقوں کے ذریعہ سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہو گئی ، اور 997 ظلم اور عُدوان کے طور پر باقی رہ گئے جن پر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے قصے کی جو تفصیل دار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں روایت ہوئی ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عبداللہ بن عمر کو بیوی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے پوچھا اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا پھر بھی میں رجوع کر سکتا تھا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : لا ، کانت تبین منک و کانت معصیۃً نہیں ، وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور یہ فعل معصیت ہوتا ۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ : اذاً قد عصیت ربک و بانت منک امر أتک ۔ اگر تم ایسا کرتے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو جاتی ۔ صحابہ کرام سے اس بارے میں جو فتاویٰ منقول ہیں وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی ارشادات سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ مُؤطّا میں ہے کہایک شخص نے آ کر حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا پھر اس پر تمہیں کیا فتویٰ دیا گیا ؟ اس نے عرض کیا مجھ سے کہا گیا ہے کہ عورت مجھ سے جدا ہو گئی ۔ آپ نے فرمایا صدقوا ، ھو مثل ما یقولون ، لوگوں نے سچ کہا ، مسئلہ یہی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔ عبدالرزاق نے عَلْقَمہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود سے کہا میں نے اپنی بیوی کو 99 طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ انہوں نے فرمایا ثلاث بینھا و سائرھن عدوان ۔ تین طلاقیں اسے جدا کرتی ہیں ، باقی سب زیادتیاں ہیں ۔ وَکیع بن الجراح نے اپنی سنن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ، دونوں کا یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے بیٹھا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا بانت منک بثلاث ۔ وہ تین طلاقوں سے تجھ سے جدا ہو گئی ۔ ایسا ہی واقعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے جواب دیا : بانت منک بثلاث وا قسم سائرھن علی نسائک ۔ تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی ، باقی طلاقوں کو اپنی دوسری عورتوں پر تقسیم کرتا پھر ۔ ابو داؤد اور ابن جریر نے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ مجاہد کی روایت نقل کی ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس بیٹھے تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں ۔ ابن عباس سن کر خاموش رہے ، حتی کہ میں نے خیال کیا شاید یہ اس کی بیوی کو اس کی طرف پلٹا دینے والے ہیں ۔ پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شخص پہلے طلاق دینے میں حماقت کا ارتکاب کر گزرتا ہے ، اس کے بعد آ کر کہتا ہے یا ابن عباس ، یا ابن عباس ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا ، اور تو نے اللہ سے تقویٰ نہیں کیا ۔ اب میں تیرے لیے کوئی راستہ نہیں پاتا ۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی ۔ ایک اور روایت جسے مؤطا اور تفسیر ابن جریر میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ مجاہد ہی سے نقل کیا گیا ہے ، اس میں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں ، پھر ابن عباس سے مسئلہ پوچھا ۔ انہوں نے جواب دیا تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی ، باقی 97 سے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی اور تو نے اللہ کا خوف نہیں کیا کہ وہ تیرے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرتا امام طحاوِی نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا : اِنَّ عمک عصی اللہ فَاَثِم و اطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجاً ۔ تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی اور گناہ کا ارتکاب کیا اور شیطان کی پیروی کی ۔ اللہ نے اس کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا ہے ۔ ابو داؤد اور مؤطا میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دیں ، پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا اور فتویٰ پوچھنے نکلا ۔ حدیث کے راوی محمد بن بکیر کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ابن عباس اور ابوہریرہ کے پاس گیا دونوں کا جواب یہ تھا انک ارسلت من یدک ماکان من فضل ۔ تیرے لیے جو گنجائش تھی تو نے اسے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا ۔ زمخشری نے کشاف میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جو شخص بھی ایسا آتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں اسے وہ مارتے تھے اور اس کی طلاقوں کو نافذ کر دیتے تھے ۔ سعید بن منصور نے یہی بات صحیح سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے نقل کی ہے ۔ اس معاملہ میں صحابہ کرام کی عام رائے ، جسے ابن ابی شیبہ اور امام محمد نے ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے ، یہ تھی کہ ان الصحابۃ رضی اللہ عنہم کانو یستحبون ان یطلقھا واحد ۃ ثم یتر کھا حتی تحیض ثلاثۃ حیض ۔ صحابہ رضی اللہ عنہیم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی بیوی کو صرف ایک طلاق دے دے اور اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آ جائیں ۔ یہ ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں ۔ اور امام محمد کے الفاظ یہ ہیں: کانو ایستحبون ان لا تزید و افی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدّۃ ۔ ان کو پسند یہ طریقہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں ایک سے زیادہ نہ بڑھیں یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے ان احادیث و آثار کی مدد سے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کا منشا سمجھ کر فقہائے اسلام نے جو مفصل قانون مرتب کیا ہے اسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں ۔ 1 ) ۔ حنفیہ طلاق کی تین قسمیں قرار دیتے ہیں: احسن ، حسَن اور بِدْعی ۔ احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں جس کے اندر اس نے مجامعت نہ کی ہو ، صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دے ۔ حَسَن یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دے ۔ اس صورت میں تین طہروں میں تین طلاق دینا بھی سنت کے خلاف نہیں ہے ، ۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ اور طلاق بدعت یہ ہے کہ آدمی بیک وقت تین طلاق دے دے ، یا ایک ہی طہر کے اندر الگ الگ اوقات میں تین طلاق دے ، یا حیض کی حالت میں طلاق دے ، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ مباشرت کر چکا ہو ۔ ان میں سے جو فعل بھی وہ کرے گا گناہگار ہو گا ۔ یہ تو ہے حکم ایسی مدخولہ عورت کا جسے حیض آتا ہو ۔ رہی غیر مدخولہ عورت تو اسے سنت کے مطابق طہر اور حیض دونوں حالتوں میں طلاق دی جا سکتی ہے ۔ اور اگر عورت ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ، تو اسے مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جا سکتی ہے ، کیونکہ اس کے حاملہ ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ اور عورت حاملہ ہو تو مباشرت کے بعد اسے بھی طلاق دی جا سکتی ہے ، کیونکہ اس کا حاملہ ہونا پہلے ہی معلوم ہے ۔ لیکن ان تینوں قسم کی عورتوں کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک مہینہ بعد طلاق دی جائے ، اور احسن یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ ( ہدایہ ، فتح القدیر ، احکام القرآن للجصاص ، عمدۃ القاری ) ۔ امام مالک کے نزدیک بھی طلاق کی تین قسمیں ہیں ۔ سُنی ، بدعی مکروہ ، اور بدعی حرام ۔ سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ مدخولہ عورت کو جسے حیض آتا ہو ، طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ بِدعی مکروہ یہ ہے کہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دی جائے جس میں آدمی مباشرت کر چکا ہو ، یا مباشرت کیے بغیر ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاقیں دی جائیں ، یا عدت کے اندر الگ الگ طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں ، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں ۔ اور بِدعی حرام یہ ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی جائے ۔ ( حاشیہ الدسوقی علیٰ الشرح الکبیر ۔ احکام القرآن لابن العربی ) ۔ امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب یہ ہے جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے : مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اسے سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر اسے طلاق دی جائے ، پھر اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ عدت گزر جائے ۔ لیکن اگر اسے تین طہروں میں تین الگ الگ طلاقیں دی جائیں ، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے دی جائیں ، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں ، یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے ، یا ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں مباشرت کی گئی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو ، تو یہ سب طلاق بدعت اور حرام ہیں ۔ لیکن اگر عورت غیر مدخولہ ہو ، یا ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ، یا حاملہ ہو ، تو اس کے معاملہ میں نہ وقت کے لحاظ سے سنت و بدعت کا کوئی فرق ہے نہ تعداد کے لحاظ سے ۔ ( الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علیٰ مذہب احمد بن حنبل ) ۔ امام شافعی کے نزدیک طلاق کے معاملہ میں سنت اور بدعت کا فرق صرف وقت کے لحاظ سے ہے نہ کہ تعداد سے َ یعنی مدخول عورت جس کو حیض آتا ہو ا سے حیض کی حالت میں طلاق دینا ‘ یا جو حاملہ ہو سکتی ہو اسے ا یسے طُہر میں طلا ق دینا جس میں مباشرت کی جا چکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظا ہر نہ ہو‘ بدعت اور حرام ہے ۔ رہی طلاقوں کی تعداد ، تو خواہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں ، یا ایک ہی طْہر میں دی جائیں ، یا الگ الگ طُہروں میں دی جائیں ، بہر حال یہ سنّت کے خلاف نہیں ہے ۔ اور غیر مدخولہ عورت جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا حیض آیا ہی نہ ہو ، یا جس کا حاملہ ہونا ظاہر ہو ، اس کے معاملہ میں سنّت اور بدعت کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ ( مغنی المحتاج ) ۔ ( 2 ) کسی طلاق کے بدعت ، مکروہ ، حرام ، یا گناہ ہونے کا مطلب ائمۂ اربعہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ واقع ہی نہ ہو ۔ چاروں مذاہب میں طلاق ، خواہ حیض کی حالت میں دی گئی ہو ، یا بیک وقت تین طلاقیں دے دی گئی ، یا ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مباشرت کی جاچکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا ہو ، یا کسی اور ایسے طریقے سے دی گئی ہو جسے کسی امام نے بدعت قرار دیا ہے ، بہر حال واقع ہو جاتی ہے ، اگر چہ آدمی گناہ گار ہوتا ہے ۔ لیکن بعض دوسرے مجتہدین نے اس مسئلے میں ائمۂ اربعہ سے اختلاف کیا ہے ۔ سعید بن المستیب اور بعض دوسرے تابعین کہتے ہیں کہ جو شخص سنت کے خلاف حیض کی حالت میں طلاق دے دے اس کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی ۔ یہی رائے امامیہ کی ہے ۔ اور اس رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ ممنوع اور بدعت محرمہ ہے اس لئے یہ غیر مؤثر ہے ۔ حالانکہ اوپر جو احادیث ہم نقل کر آئے ہیں ان میں یہ بیان ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جب بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضور نے انہیں رجوع کا حکم دیا ۔ اگر یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع کا حکم دینے کے کیا معنی؟ اور یہ بھی بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک سے زیادہ طلاق دینے والے کو اگرچہ گناہگار قرار دیا ہے ، مگر اس کی طلاق کو غیر مؤثر قرار نہیں دیا ۔ طاؤس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں تو صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے ، اور اسی رائے کو امام ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے ۔ ان کی اس رائے کا ماخذ یہ روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس سے پوچھا کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں تین طاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ( بخاری و مسلم ) اور مسلم ، ابو داؤد اور مسند احمد میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سوالوں میں تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیئے سوچ سمجھ کر کام کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی ۔ اب کیوں نہ ہم ان کے اس فعل کر نافذ کر دیں؟ چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کر دیا لیکن یہ رائے کئی و جوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ اول تو متعدد روایات کے مطابق ابن عباس کا اپنا فتوی اس کے خلاف تھا جیسا کہ ہم اوپر نقل کر چکے ہیں ۔ دوسرے یہ بات ان احادیث کے بھی خلاف پڑتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہوئی ہیں ، جن میں بیک وقت تین طلاق دینے والے کے متعلق یہ فتوی دیا گیا ہے کہ اس کی تینوں طلاقیں نافذ ہو جاتی ہیں ۔ یہ احادیث بھی ہم نے اوپر نقل کر دی ہیں ۔ تیسرے ، خود ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تین طاقوں کو نافذ کرنے کا اعلان فرمایا تھا ، لیکن نہ اس وقت ، نہ اس کے بعد کبھی صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کا اظہار کیا ۔ اب کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سنت کے خلاف کسی کام کا فیصلہ کر سکتے تھے ؟ اور سارے صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر سکوت بھی پر اختیار کر سکتے تھے ؟ مزید براں رکانہ بن عبد یزید کے قصے میں ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، امام شافعی دارمی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رکانہ نے جب ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ ان کی نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی؟ ( یعنی باقی دو طلاقیں پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے ان کی زبان سے نکلی تھیں ، تین طلاق دے کر ہمیشہ کے لئے جدا کر دینا مقصود نہ تھا ) اور جب انہوں نے یہ حلفیہ بیان دیا تو آپ نے ان کو رجوع کا حق دے دیا ۔ اس سے اس معاملہ کی اصل حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ ابتدائی دور میں کسی قسم کی طلاقوں کو ایک کے حکم میں رکھا جاتا تھا ۔ اسی بنا پر شارحین حدیث نے ابن عباس کی روایت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ابتدائی دور میں چونکہ لوگوں کے اندر دینی معاملات میں خیانت قریب مفقود تھی ، اس لیئے تین طلاقیں محض پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے اس کی زبان سے نکلی تھیں ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ پہلے جلد بازی کر کے تین تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں اور پھر تاکید کا بہانہ کرتے ہیں تو انہوں نے اس بہانے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ امام نووی اور امام سبکی نے اسے ابن عباس والی روایت کی بہترین تاویل قرار دیا ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ خود ابو الصباء کی ان روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے جو ابن عباس کے قول کے بارے میں ان سے مروی ہیں ۔ مسلم اور ابوداؤد اور نسائی نے انہی ابو الصباء سے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر ان عباس نے فرمایا ایک شخص جب خلوت سے پہلے بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اس کو ایک طلاق قرار دیا جاتا تھا اس طرح ایک ہی راوی نے ابن عباس سے دو مختلف مضمونوں کی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ اختلاف دونوں روایتوں کو کمزور کر دیتا ہے ۔ ( 3 ) حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کو چونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع کا حکم دیا تھا ، اس لیئے فقہا کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ یہ حکم کس معنی ہے ۔ امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد ، امام اوزاعی ، ابن ابی لیلی ، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو رجوع کا حکم تو دیا جائے گا مگر رجوع پر مجبور نہ کیا جائے گا ( عمدۃ القاری ) ۔ ہدایہ ہیں حنفیہ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت میں رجوع کرنا نہ صرف مستحب بلکہ واجب ہے ۔ مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ جس نے حیض میں طلاق دی ہو اور تین نہ دے ڈالی ہوں اس کے لیئے مسنون یہ ہے کہ وہ رجوع کرے ، اور اس کے بعد والے طہر میں طلاق نہ دے بلکہ اس کے گزر نے کے بعد جب دوسری مرتبہ عورت حیض سے فارغ ہو تب طلاق دینا چاہے تو دے ، تاکہ حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع محض کھیل کے طور پر نہ ہو ۔ الانصاف میں حنابلہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ اس حالت میں طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کرنا مستحب ہے ۔ لیکن امام مالک اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا جرم قابل دست اندازیِ پولیس ہے ۔ عورت خواہ مطالبہ کرے یا نہ کرے ، بہر حال حاکم کا یہ فرض ہے کہ جب کسی شخص کا یہ فعل اس کے علم میں آئے تو وہ اسے رجوع پر مجبور کرے اور عدت کے آخری وقت تک اس پر دباؤ ڈالتا رہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے قید کر دے ۔ پھر بھی انکار کرے تو اسے مارے ۔ اس پر نہ مانے تو حاکم خود فیصلہ کر دے کہ میں نے تیری بیوی تجھ پر واپس کر دی اور حاکم کا یہ فیصلہ رجوع ہو گا جس کے بعد مرد کے لیئے اس عورت سے مباشرت کرنا جائز ہوگا ، خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو ، کیونکہ حاکم کی نیت کی قائم مقام ہے ( حاشیہ الدسوتی ) مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس شخص نے طوعاً و کرہاً حیض میں دی ہوئی رجوع کر لیا ہو وہ اگر طلاق ہی دینا چاہے تو اس کے لیئے مستحب طریقہ یہ ہے کہ جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کے بعد والے طہر میں سے طلاق نہ دے بلکہ جب دوبارہ حیض آنے کے بعد وہ طاہر ہو اس وقت طلاق دے ۔ طلاق سے متصل والے طہر میں طلاق نہ دے نے کا حکم دراصل اس لیئے دیا گیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کا رجوع صرف زبانی کلامی نہ ہو بلکہ اسے طہر کے زمانے میں عورت سے مباشرت کرنی چاہیے پھر جس طہر میں مباشرت کی جاچکی ہو اس میں طلاق دینا چونکہ ممنوع ہے ، لہذا طلاق دینے کا صحیح وقت اس کے والا طہر ہی ہے ( حاشیہ الدسوتی ) ۔ ( 4 ) رجوعی طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کا موقع کسی وقت تک ہے ؟ اس میں بھی فقہاء کے درمیان سے مراد تین حیض ہیں یا تین طہر؟ امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک قرء سے مراد حیض ہے اور امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب بھی یہی ہے ۔ یہ رائے چاروں خلفاء راشدین ، عبداللہ بن مسعود عبد اللہ بن عباس ابی بن کعب ، معاذ بن جبل ، ابو الدردا ، عبادہ بن صامت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ۔ امام محمد نے مؤطا میں شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے 13 صحابیوں سے ملے ہیں ، اور ان سب کی رائے یہی تھی ۔ اور یہی بکثرت تابعین نے بھی اختیار کی ہے ۔ اس اختلاف کی بنا شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک تیسرے حیض میں داخل ہوتے ہی عورت کی عدت ختم ہو جاتی ہے ، اور مرد کا حق رجوع ساقط ہو جاتا ہے ۔ اور اگر طلاق حیض کی حالت میں دی گئی ہو ، اس حیض کا شمار عدت میں نہ ہوگا ، بلکہ چو تھے حیض میں داخل ہونے پر عدت ختم ہوگی ( مضنی المحتاج أ حاشیہ الدستی ) حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر تیسرے حیض میں دس دن گزر نے پر خون بند ہو تو عورت کی عدت ختم نہ ہوگی جب تک عورت غسل نہ کرے ، یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزر جائے ۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک جب عورت تیمم کر کے نماز پڑ ھ لے اس وقت مرد کا حق رجوع ختم ہو گا ، اور امام محمد کے نزدیک تیمم کرتے ہی حق رجوع ختم ہو جائے گا ( ہدایہ ) امام احمد کا معتبر مذہب جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے ، یہ ہے کہ جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل نہ کر لے مرد کا حق رجوع باقی رہے گا ( الانصاف ) ( 5 ) رجوع کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح نہیں ہوتا ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ہو وہ عدت ختم ہونے پہلے چاہے رجوع کر سکتا ہے ، خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ قرآن مجید ( سورہ بقرہ ، آیت 228 ) میں فرما یا گیا ہے وَبُعُولَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں واپس لے لینے کے پوری طرح حق دار ہیں اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عدت گزر نے سے پہلے تک ان کی زوجیت بر قرار رہتی ہے اور وہ انہیں قطعی طور پر چھوڑ دینے سے پہلے واپس لے سکتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر رجوع کوئی تجدید نکاح نہیں ہے کہ اس کے لیئے عورت کی رضا ضروری ہو ۔ شافعیہ کے نزدیک رجوع صرف قول ہی سے ہو سکتا ہے ، عمل سے نہیں ہو سکتا ۔ اگر آدمی زبان سے یہ نہ کہے کہ میں نے رجوع کیا تو مباشرت یا اختلاط کا کوئی فعل خواہ رجوع کی نیت ہی سے کیا گیا ہو ، رجوع قرار نہیں دیا جا ئے گا ، بلکہ اس صورت میں عورت سے ہر قسم سے کا اتمتاع حرام ہے چاہے وہ بلا شہوت ہی ہو ۔ لیکن مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرنے پر حد نہیں ہے ، کیونکہ علماء کا اس کے حرام ہونے پر اتفاق نہیں ہے ۔ البتہ جو اس کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہوا سے تعزیز دی جائے گی ۔ مزید براں آدمی رجوع بالقول کرے یا نہ کرے ( مغنی المحتاج ) ۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ رجوع قول اور فعل ، دونوں سے ہو سکتا ہے ۔ اگر رجوع بالقول میں آدمی صریح الفاظ استعمال کرے تو خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو ، رجوع ہو جائے گا ، بلکہ اگر وہ مذاق کے طور پر بھی رجوع قرار دیئے جائیں گے جبکہ وہ رجوع کی نیت سے کہے گئے ہوں ۔ رہا رجوع بالفعل تو کوئی فعل خواہ وہ اختلاط ہو ، یا مباشرت ، اس وقت تک رجوع قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ وہ رجوع کی نیت سے نہ کیا گیا ہو ( حاشیتہ الدسوتی ۔ احکام القرآن لابن العربی ) حنیفہ اور حنابلہ کا مسلک رجوع بالقول کے معاملہ میں وہی جو مالکیہ کا ہے ۔ ربا رجوع بالفعل ، تو مالکیہ کے بر عکس ان دونوں مذاہب کا فتوی یہ ہے کہ شوہر اگر عدت کے اندر مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کر لے تو وہ آپ سے آپ رجوع ہے ، خواہ وہ مباشرت سے کم کسی درجے کا ہو ، اور حنابلہ محض اختلاط کو رجوع نہیں مانتے ( ہدایہ ، فتح القدیر ، عمدۃ القاری ، الانصاف ) ( 6 ) طلاق سنت اور طلاق بدعت کے نتائج کا فرق یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاق دینے کی صورت میں اگر عدت گزر بھی جائے تو مطلّقہ عورت اور اس کے سابق شوہر کے درمیان باہمی رضامندی سے پھر نکاح ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر آدمی تین طلاق دے چکا ہو تو نہ عدّت کے اندر رجوع ممکن ہے اور نہ عدّت گزر جانے کے بعد دو بارہ نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ الّا یہ کہ اس عورت کا نکاح کسی اور شخص سے ہو ، وہ نکاح صحیح نوعیت کاہو ، دوسرا شوہر اس عورت سے مباشرت بھی کر چکا ہو ، پھر یا تو وہ اسے طلاق دے دے یا مر جائے ۔ اس کے بعد اگر عورت اور اس کا سابق شوہر رضامندی کے ساتھ از سرِ نو نکاح کرنا چاہیں توکر سکتے ہیں ۔ احادیث کی اکثر کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ، اور اس دوسرے شوہر کے ساتھ اس کی خلوت بھی ہوئی مگر مباشرت نہیں ہوئی ، پھر اس نے اسے طلاق دے دی ، اب کیا اس عورت کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: لا ، حتّٰی یزوق الاٰخر من عسَیْلتھا ما ذاق الاول ۔ نہیں ، جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہو چکا ہو جس طرح پہلا شوہر ہوا تھا ۔ رہا سازشی نکاح ، جس میں پہلے سے یہ طے شدہ ہو کہ عورت کو سابق شوہر کے لیے حلال کرنے کی خاطر ایک آدمی اس سے نکاح کرے گا اور مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دیدے گا ، تو امام ابو یوسف کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہے ، اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک اس سے تحلیل تو ہو جائے گی ، مگر یہ فعل مگر وہ تحریمی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لعن اللہ المحلل و المحلل لہ ، اللہ نے تحلیل کرنے والے اور تحلیل کرانے والے ، دونوں پر لعنت فرمائی ہے ( ترمذی ، نسائی ) ۔ حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے پوچھا الا اخبرکم بالتیس المستعار؟ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ کرائے کا سانڈ کون ہوتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں ۔ فرمایا ھوالمحلل ، لعن اللہ المحلل و المحلل لہ ۔ وہ تحلیل کرنے والا ہے ۔ خدا کی لعنت ہے تحلیل کرنے والے پر بھی اور اس شخص پر بھی جس کے لیے تحلیل کی جائے ( ابن ماجہ ۔ دارقطنی ) ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :2 اس حکم کا خطاب مردوں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی اور ان کے خاندان والوں سے بھی ۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق کو کھیل نہ سمجھ بیٹھو کہ طلاق کا اہم معاملہ پیش آنے کے بعد یہ بھی یاد نہ رکھا جائے کہ کب طلاق دی گئی ہے ، کب عدت شروع ہوئی اور کب اس کو ختم ہونا ہے ۔ طلاق ایک نہایت نازک معاملہ ہے جس سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لیے جب طلاق دی جائے تو اس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جائے ، اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ کس حالت میں عورت کو طلاق دی گئی ہے ، اور حساب لگا کر دیکھا جائے کہ عدت کا آغاز کب ہوا ہے ، کب تک وہ باقی ہے ، اور کب وہ ختم ہو گئی ۔ اسی حساب پر ان امور کا فیصلہ موقوف ہے کہ شوہر کو کب تک رجوع کا حق ہے ۔ کب تک اسے عورت کو گھر میں رکھنا ہے ، کب تک اس کا نفقہ دینا ہے ، کب تک وہ عورت کا وارث ہو گا اور عورت اس کی وارث ہو گی ، کب عورت اس سے جدا ہو جائے گی اور اسے دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہو جائے گا ۔ اور اگر یہ معاملہ کسی مقدمہ کی صورت اختیار کر جائے تو عدالت کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کے لیے طلاق کی صحیح تاریخ اور وقت اور عورت کی حالت معلوم ہونے کی ضرورت ہو گی ، کیونکہ اس کے بغیر وہ مدخولہ اور غیر مدخولہ ، حاملہ اور غیر حاملہ ، بے حیض اور باحیض ، رجعیہ اور غیر رجعیہ عورتوں کے معاملہ میں طلاق سے پیدا شدہ مسائل کا صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :3 یعنی نہ مرد غصے میں آ کر عورت کو گھر سے نکال دے ، اور نہ عورت خود ہی بگڑ کر گھر چھوڑ دے ۔ عدت تک گھر اس کا ہے ۔ اسی گھر میں دونوں کو رہنا چاہیے ، تاکہ باہم موافقت کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ طلاق اگر رجعی ہو تو کسی وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہو سکتی ہے ، اور بیوی بھی اختلاف کے اسباب کو دور کر کے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ دونوں ایک گھر میں موجود رہیں گے تو تین مہینے تک ، یا تین حیض آنے تک ، یا حمل کی صورت میں وضع حمل تک اس کے مواقع بارہا پیش آ سکتے ہیں ۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کر کے اسے نکال دے ، یا عورت ناسمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں رجوع کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور بالعموم طلاق کا انجام آخر کار مستقل علیٰحدگی ہو کر رہتا ہے ۔ اسی لیے فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو ( ہدایہ ۔ الانصاف ) ۔ فقہاء کے درمیان اس امر میں اتفاق ہے کہ مطلقہ رجعیہ کو عدت کے زمانے میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ، اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے جائے ، اور مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اسے گھر سے نکالے ۔ اگر مرد اسے نکالے گا تو گناہ گار ہو گا ، اور عورت اگر خود نکلے گی تو گناہ گار بھی ہو گی اور نفقہ و سکونت کے حق سے بھی محروم ہو جائے گی ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :4 اس کے متعدد مطلب مختلف فقہاء نے بیان کیے ہیں ۔ حضرت حسن بصری ، عامر شعبی ، زید بن اسلم ، ضحاک ، مجاہد ، عکرمہ ، ابن زید ، حماد اور لیث کہتے ہیں کہ اس سے مراد بدکاری ہے ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد زبانی ہے ، یعنی یہ کہ طلاق کے بعد بھی عورت کا مزاج درستی پر نہ آئے ، بلکہ وہ عدت کے زمانے میں شوہر اور اس کے خاندان والوں سے جھگڑتی اور بد زبانی کرتی رہے ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نشوز ہے ، یعنی عورت کو نشوز کی بنا پر طلاق دی گئی ہو اور عدت کے زمانے میں بھی وہ شوہر کے مقابلے پر سرکشی کرنے سے باز نہ آئے ۔ عبد اللہ بن عمر ، سدی ، ابن السائب ، اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا گھر سے نکل جانا ہے ، یعنی ان کی رائے میں طلاق کے بعد عدت کے زمانہ میں عورت کا گھر چھوڑ کر نکل جانا بجائے خود فاحشۃ مبینۃ ( صریح برائی کا ارتکاب ) ہے ، اور یہ ارشاد کہ وہ نہ خود نکلیں الّا یہ کہ صریح برائی کی مرتکب ہوں کچھ اس طرح کا کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ تم کسی کو گالی نہ دو الّا یہ کہ بدتمیز بنو ان چار اقوال میں سے پہلے تین قولوں کے مطابق الّا یہ کا تعلق ان کو گھروں سے نہ نکالو کے ساتھ ہے اور اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بد چلنی یا بد زبانی یا نشوز کی مرتکب ہوں تو انہیں نکال دینا جائز ہو گا ۔ اور چوتھے قول کی رو سے اس کا تعلق اور نہ وہ خود نکلیں کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نکلیں گی تو صریح برائی کی مرتکب ہوں گی ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :5 یہ دونوں فقرے ان لوگوں کے خیال کی بھی تردید کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے یا بیک وقت تین طلاق دے دینے سے کوئی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی ، اور ان لوگوں کی رائے کو بھی غلط ثابت کر دیتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر بدعی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی یا تین طلاق ایک ہی طلاق رجعی کے حکم میں ہیں ، تو یہ کہنے کی آخر ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ جو اللہ کی حدود ، یعنی سنت کے بتائے ہوئے طریقے کی خلاف ورزی کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا ، اور تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ؟ یہ دونوں باتیں تو اسی صورت میں با معنی ہو سکتی ہیں جبکہ سنت کے خلاف طلاق دینے سے واقعی کوئی نقصان ہوتا ہو جس پر آدمی کو پچھتانا پڑے ، اور تین طلاق بیک وقت دے بیٹھنے سے رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا ہو ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو طلاق واقع ہی نہ ہو اس سے حدود اللہ پر کوئی تعدی نہیں ہوتی جو اپنے نفس پر ظلم قرار پائے ، اور جو طلاق بہرحال رجعی ہی ہو اس کے بعد تو لازماً موافقت کی صورت باقی رہتی ہے ، پھر یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ۔
اولاً تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم شرافت و کرامت کے طور پر خطاب کیا گیا پھر تبعاً آپ کی امت سے خطاب کیا گیا اور طلاق کے مسئلہ کو سمجھایا گیا ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفضہ کو طلاق دی وہ اپنے میکے آ گئیں اس پر یہ آیت اتری اور آپ سے فرمایا گیا کہ ان سے رجوع کر لو وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ یہاں بھی آپ کی بیوی ہیں اور جنت میں بھی آپ کی ازواج میں داخل ہیں ، یہی روایت مرسلاً ابن جریر میں بھی ہے اور سندوں سے بھی آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفضہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دی پھر رجوع کر لیا ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ، بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ نہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ، حضرت عمر نے یہ واقعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ ناراض ہوئے اور فرمایا سے چاہئے کہ رجوع کر لے پھر حیض سے پاک ہونے تک روکے رکھے پھر دوسرا حیض آئے اور اس سے نہا لیں پھر اگر جی چاہے طلاق دیں یعنی اس پاکیزگی کی حالت میں بات چیت کرنے سے پہلے یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مذکور ہے ، حضرت عبدالرحمٰن بن ایمن نے جو عزہ کے مولیٰ ہیں حضرت ابو الزبیر کے سنتے ہوئے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو آپ نے فرمایا سنو ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں طلاق دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لوٹا لے چنانچہ ابن عمر نے رجوع کر لیا اور یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اس سے پاک ہو جانے کے بعد اسے اختیار ہے خواہ طلاق دے خواہ بسا لے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) ( مسلم ) دوسری روایت میں ( ترجمہ ) یعنی طہر کی حالت میں جماع سے پہلے ، بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی حیض میں طلاق نہ دو ، نہ اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع ہو چکا ہو بلکہ اس وقت تک چھوڑ دے جب حیض آ جائے پھر اس سے نہا لے تب ایک طلاق دے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں عدت سے مراد طہر ہے ، قرء سے مراد حیض ہے یا حمل کی حالت میں ، جب حمل ظاہر ہو ، جس طہر میں مجامعت کر چکا ہے اس میں طلاق نہ دے نہ معلوم حاملہ ہے یا نہیں ، یہیں سے با سمجھ علماء نے احکام طلاق لئے ہیں اور طلاق کی دو قسمیں کی ہیں طلاق سنت اور طلاق بدعت ، طلاق سنت تو یہ ہے کہ طہر کی یعنی پاکیزگی کی حالت میں جماع کرنے سے پہلے طلاق دے دے یا حالت حمل میں طلاق دے اور بدعی طلاق یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق دے یا طہر میں دے لیکن مجامعت کر چکا ہو اور معلوم نہ ہو کہ حمل ہے یا نہیں؟ طلاق کی تیسری قسم بھی ہے جو نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت اور وہ نابالغہ کی طلاق ہے اور اس عورت کی جسے حیض کے آنے سے نامیدی ہو چکی ہو اور اس عورت کی جس سے دخول نہ ہوا ۔ ان سب کے احکام اور تفصیلی بحث کی جگہ کتب فروغ ہیں نہ کہ تفسیر ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ، پھر فرمان ہے عدت کی حفاظت کرو اس کی ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسرا خاوند کرنے سے روک دے ، اور اس بارے میں اپنے ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسا خاوند کرنے سے روک دے اور اس بارے میں اپنے معبود حقیقی پروردگار عالم سے ڈرتے رہو ، عدت کے زمانہ میں مطلقہ عورت کی رہائش کا مکان خاوند کے ذمہ ہے وہ اسے نکال نہ دے اور نہ خود اسے نکلنا جائز ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کے حق میں رکی ہوئی ہے ( ترجمہ ) زنا کو بھی شامل ہے اور اسے بھی کہ عورت اپنے خاوند کو تنگ کرے اس کا خلاف کرے اور ایذاء پہنچائے ، یا بدزبانی و کج خلقی شروع کر دے اور اپنے کاموں سے اور اپنی زبان سے سسرال والوں کو تکلیف پہنچائے تو ان صورتوں میں بیشک خاوند کو جائز ہے کہ اسے اپنے گھر سے نکال باہر کرے ، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کی شریعت اور اس کے بتائے ہوئے احکام ہیں ۔ جو شخص ان پر عمل نہ کرے انہیں بےحرمتی کے ساتھ توڑ دے ان سے آگے بڑھ جائے وہ اپنا ہی برا کرنے والا اور اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا ہے شاید کہ اللہ کو نئی بات پیدا کر دے اللہ کے ارادوں کو اور ہونے والی باتوں کو کوئی نہیں جا سکتا ، عدت کا زمانہ مطلقہ عورت کو خاوند کے گھر گذارنے کا حکم دینا اس مصلحت سے ہے کہ ممکن ہے اس مدت میں اس کے خاوند کے خیالات بدل جائیں ، طلاق دینے پر نادم ہو دل میں لوٹا لینے کا خیال پیدا ہو جائے اور پھر رجوع کر کے دونوں میاں بیوی امن و امان سے گذارا کرنے لگیں ، نیا کام پیدا کنے سے مراد بھی رجعت ہے ، اسی بنا پر بعض سلف اور ان کے تابعین مثلاً حضرت امام احمد بن حنبل وغیرہ کا مذہب ہے کہ متبوتہ یعنی وہ عورت جس کی طلاق کے بعد خاوند کو رجعت کا حق باقی نہ رہا ہو اس کے لئے عدت گذارنے کے زمانے تک مکان کا دینا خاوند کے ذمہ نہیں ، اسی طرح جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اسے بھی رہائشی مکان عدت تک کے لئے دینا اس کے وارثوں پر نہیں ان کی اعتمادی دلیل حضرت فاطمہ بنت قیس فہریہ والی حدیث ہے کہ جب ان کے خاوند حضرت ابو عمر بن حفص نے ان کو تیسری آخری طلاق دی اور وہ اس وقت یہاں موجود نہ تھے بلکہ یمن میں تھے اور ویں سے طلاق دی تھی تو ان کے وکیل نے ان کے پاس تھوڑے سے جو بھیج دیئے تھے کہ یہ تمہاری خوراک ہے یہ بہت ناراض ہوئیں اس نے کہا بگڑتی کیوں ہو؟ تمہارا نفقہ کھانا پینا ہمارے ذمہ نہیں ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تیرا نفقہ اس پر نہیں ۔ مسلم میں ہے نہ تیرے رہنے سہنے کا گھر اور ان سے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر اپنی عدت گذارو ، پھر فرمایا وہاں تو میرے اکثر صحابہ جایا آیا کرتے ہیں تم عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں اپنی عدت کا زمانہ گذارو وہ ایک نابینا آدمی ہیں تم وہاں آرام سے اپنے کپڑے بھی رکھ سکتی ہو ، مسند احمد میں ہے کہ ان کے خاوند کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جہاد پر بھیجا تھا انہوں نے وہیں سے انہیں طلاق بھیج دی ان کے بھائی نے ان سے کہا کہ ہمارے گھر سے چلی جاؤ انہوں نے کہا نہیں جب تک عدت ختم نہ ہو جائے میرا کھانا پینا اور رہنا سہنا میرے خاوند کے ذمہ ہے اس نے انکار کیا آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ معاملہ پہنچا جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ آخری تیسری طلاق ہے تب آپ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا نان نفقہ گھر بار خاوند کے ذمہ اس صورت میں ہے کہ اسے حق رجعت حاصل ہو جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں تم یہاں سے چلی جاؤ اور فلاں عورت کے گھر اپنی عدت گذارو پھر فرمایا وہاں تو صحابہ کی آمد و رفت ہے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت کا زمانہ گذارو وہ نابینا ہیں تمہیں دیکھ نہیں سکتے ۔ طبرانی میں ہے یہ حضرت فاطمہ بنت قیس ضحاک بن قیس قرشی کی بہن تھیں ان کے خاوند مخزومی قبیلہ کے تھے ، طلاق کی خبر کے بعد ان کے نفقطہ طلب کرنے پر ان کے خاوند کے اولیاء نے کہا تھا نہ تو تمہارے میاں نے کچھ بھیجا ہے نہ ہمیں دینے کو کہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ جب عورت کو وہ طلاق مل جائے جس کے بعد وہ اپنے اگلے خاوند پر حرام ہو جتای ہے جب تک دوسرے سے نکاح اور پھر طلاق نہ ہو جائے تو اس صورت میں عدت کا نان نفقہ اور رہنے کا مکان اس کے خاوند کے ذمہ نہیں ۔